حکومت میں دراڑ کی قیاس آرائیاں
شیئر کریں
عام طورپر یہ اُمید کی جارہی تھی کہ انتخابات ہوں گے تو ایک ٹھہراؤ آئے گا۔تمام پارٹیاں ایک جگہ بیٹھ کر ملک اور اس ملک کے عوام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گی،اس طرح سیاسی استحکام پیدا ہو گا، ملک بے یقینی سے نکلے گا۔ملک کی بہتری اور ترقی کے فیصلے کیے جائیں گے،لیکن انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر نے مبینہ طوپر کسی طاقتور کے اشارے پر وہ ڈرامہ رچایا کہ نہ وہ خو ش ہوا جسے راتوں رات جتوایا گیااور نہ وہ جسے عوام کی بھاری اکثریت کے حمایت کے باوجود اسمبلی سے باہر دھکیل دیاگیا،یہی وجہ ہے کہ ٹھہراؤ اور اطمینان وسکون کی امیدیں انتخابی ڈرامے کے ساتھ ہی دم توڑ گئیں،جج حضرات نے بھی اب دباؤ اور دھمکیاں مزید برداشت نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے،اگرچہ ججوں کو دھمکی آمیز خطوط اور اس کے بعد موت کے پیغامات کے معاملے کو انکوائری کمیٹی یا کمیشن بناکر قالین تلے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور مسلم لیگ ن کے چہیتے تیغ بے نیام رہنما رانا ثنا اللہ باقاعدہ ایک بیان میں یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ جو کچھ ہوچکا ہوچکا، اب اسے مزید کریدنے اور اس پر آواز اٹھانے کے بجائے اس معاملے کو فراموش کردیا جائے یعنی اس پر مٹی ڈالی جائے اور آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کے بعد آگے بڑھاجائے۔بآلفاظ دیگر انھوں نے کہہ دیاہے کہ زیادہ شور کرنے کی ضرورت نہیں ہے خاموشی سے اپنا کام کرتے رہو۔یہی وہ صورت حال ہے جس نے عوام کو بے چین کررکھاہے اور عوام کی اس بے اطمینانی سے فائدہ اٹھانے کیلئے اب پی ٹی آئی سمیت حزب اختلاف کی تمام جماعتیں حکومت کے خلاف منظم ہورہی ہیں۔عید کے بعد تحریک انصاف اور جے یو آئی سڑکوں پر احتجاج کرنے جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے تو ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی بنا لیا ہے۔ یہ سب کچھ سامنے کی باتیں ہیں، اس پوری صورت حال میں حکومت کا رویہ حیران کن ہے۔ عموماً ایسے حالات میں حکومتیں آگے آتی ہیں، حالات کو سنبھالتی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی۔ اِس وقت حکومت اگر مولانا فضل الرحمن کی اِس بات پر ہی عمل کر لے کہ حکومت چاہے تو مقدمات تو راتوں رات ختم ہو جاتے ہیں تو ایک بلاوجہ کا تناؤ کم ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال میں عوام بڑی بے تابی سے کسی ایسے ریلیف کے منتظر ہیں جو انہیں زندگی کے مشکل ترین معاشی حالات سے نکالے،مگر اُن کی امید پوری نہیں ہو رہی۔ اُمید پوری ہونا تو دور کی بات ہے اُن کے رہے سہے حالات بھی دِگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے لیٹر اضافہ اور پھر بجلی کی قیمت میں اضافے کے بعد مزید اضافے کے اشاروں نے مرے کو مارے شاہ مدار والی صورت پیدا کر دی ہے۔گیس کے نرخ پہلے ہی ایک بڑے معاشی بوجھ کا باعث بن چکے ہیں۔ان حالات میں صرف طبقہ اشرافیہ ہے جو تمام باتوں سے بے پروا چین کی بانسری بجارہاہے۔
وزرا کی جانب سے2-3 لاکھ تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا جارہاہے لیکن یہ اعلان بھی ایک ڈرامہ بلکہ مضحکہ خیز ڈرامہ ہے کیونکہ کسی وزیر نے اپنی مراعات میں کوئی کٹوتی نہیں کی۔ان کی گاڑیاں پیٹرول پانی کی طرح پی رہی ہیں دیگر مراعات بھی اپنی جگہ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنخواہیں نہ لینے کااعلان ایک مضحکہ خیز ڈرامہ ہے، کروڑوں روپے کے اخراجات پر پلنے والے یہ لوگ اگر اپنی تمام مراعات بھی واپس کردیتے اور یہ اعلان کرتے کہ ملک کے معاشی طورپر مضبوط ہونے اور عوام کو گیس وبجلی کی کم قیمتوں میں فراہمی ممکن ہونے تک ہم حکومت
کی کوئی مراعات نہیں لیں گے، ہم اپنی گاڑیوں میں پیٹرول اپنی جیب خاص سے ڈالیں گے اور ڈرائیور کی تنخواہ بھی خود ہی دیں گے،کوئی ٹی اے ڈی اے نہیں لیں گے تو بات سمجھ میں آتی کہ ہمارے ارباب اختیار بھی ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے کچھ قربانی دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں لیکن لیکن صرف تنخواہ نہ لینے کا اعلان تو وہ ایک ڈرامہ ہی لگتا ہے۔وزراکے پروٹوکول اور شاہانہ لاؤ لشکر اُسی طرح جاری ہیں، افسروں کی موج بھی لگی ہوئی ہے۔لاکھوں سرکاری گاڑیاں اربوں روپے کا پٹرول پھونک رہی ہیں،وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے،کوئی پوچھنے والا نہیں،اسی پر بس نہیں ہے بلکہ اب خبر آئی ہے کابینہ کے ارکان کو نئی گاڑیوں پر بٹھانے کیلئے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں آئے روز والدین کی اپنے ہی بچے مار کر خود کشی کرنے کی خبر آ جاتی ہے۔ان حالات میں عوام کی نمائندگی کے دعویدار اتنے بے حس اور خود غرض ارکان اور وزراء،وزارئے اعلیٰ اور افسران کی موجودگی میں کیا کسی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔
فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جب عوام بے چین ہوتے ہیں تو معاشرہ بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر بے چینی کو ختم کرنا ہے،تو پھر سب سے پہلے عوام کی بے چینی کو ختم کرنا ہو گا۔سوال یہ ہے کہ کیااِس وقت حکومت کی کوئی سوچ، کوئی پالیسی اور کوئی حکمت عملی ایسی ہے،جس سے اُمید کی جا سکے وہ عوام کی بے چینی ختم کرنا چاہتی ہے۔دور دور تک ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس اب تو یہ ظاہرہونے لگاہے کہ حکمران اتحاد ابھی سے ایک پیج پر نہیں ہے؟ ایک پیچ پر نہ ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں اتحادی حکومت تشکیل پانے کے دوسرے مہینے میں ہی ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں،بہت سے ایشوز، تجزیے اور تبصرے بتاتے ہیں کہ معاملات ٹھیک نہیں چل رہے اور حکمران اتحاد میں مختلف ایشوز پر اختلافات پیدا ہو جانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو شکوہ ہے کہ ان کو ان کی مرضی کی ٹیم نہیں ملی، وزیر خزانہ ان کی مرضی کا ملا نہ وزیر داخلہ۔ اس طرح کی سرگوشیاں پہلے ہی سیاسی ایوانوں میں سنائی دینا شروع ہو چکی ہیں کہ معاملات سب ٹھیک نہیں ہیں۔ان باتوں میں کتنی صداقت ہے اس کا جواب تو وقت گزرنے کے ساتھ ہی مل سکے گا، لیکن یہ سوال بہرحال ذہن میں ابھرتا ہے کہ وزیر داخلہ اگر وزیر اعظم کا انتخاب یا پسند نہیں ہیں تو پھر انہیں کون کس مقصد کے لیے آگے لے کر آیا ہے، اسی طرح وزیر خزانہ کو کس نے وزیر خزانہ بنایا یا بنوایا اور کس نے اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ مقرر کرایا؟ یہ بات عام طورپر کہی جارہی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان اب اچھے تعلقات نہیں رہے، ایوان اقتدار کے قریب تر ہونے کے دعویدار حلقوں کا کہناہے کہ محسن نقوی چاہتے تھے کہ وہ بیوروکریسی کی اپنی پنجاب ٹیم کو اسلام آباد میں لے جائیں جس میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور بھی شامل تھے، وہ انہیں سیکریٹری داخلہ تعینات کرانا چاہتے تھے جبکہ یہ بات وزیر اعظم شہباز شریف کو پسند نہیں آئی اور انہوں نے وہاں کسی دوسرے افسر کو تعینات کر دیا۔حالیہ الیکشن میں ایک صوبہ پی ٹی آئی لے گئی، 2 صوبے پیپلز پارٹی کے پاس اور پنجاب مریم صفدر کے حوالے ہے، اس طرح شہباز شریف کی حکمرانی اسلام آباد تک محدودہے اب اگراسلام آباد محسن نقوی نے ٹیک اوور کر لیا تو ان کے پاس کیا بچے گا؟ اسی طرح محسن نقوی، پنجاب کے سیکریٹری مواصلات و تعمیرات لیفٹیننٹ ریٹائرڈ سہیل اشرف کو پہلے پی سی بی کا چیف آپریٹنگ افسر اور پھر چیف کمشنر اسلام آباد لگوانا چاہتے تھے، اب تازہ ترین معاملہ یہ ہے کہ وہ ڈی آئی جی لاہور علی ناصر رضوی کو آئی جی اسلام آباد لگوانا چاہتے ہیں،ان کا نوٹیفکیشن بھی انھوں نے جاری کرالیا ہے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کی
جانب سے اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا اور ابھی تک انہیں پنجاب سے چارج چھوڑنے کی اجازت نہیں ملی۔ معاملہ یہ ہے کہ وزیر داخلہ،وزیر اعظم کو راس آ رہے ہیں نہ ہی مریم صفدر کو، وہ اوپر اوپر سے سارے معاملات کلیئر کروا رہے ہیں، ان کا کس جماعت سے تعلق ہے یہ بھی واضح نہیں،ابھی تک وہ بہت کچھ لے کر بھی آزاد ہیں، لگتا ہے وہ آئندہ سیاست میں کوئی بڑا عہدہ لینا چاہ رہے ہیں۔ دوسری طرف انہیں وزیر اعظم نے ای سی ایل کمیٹی میں بھی نہیں ڈالا حالانکہ وزیر داخلہ کا ہی محکمہ ای سی ایل کے معاملات کو ڈیل کرتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کچھ توہے جس کی بظاہر پردہ داری کی جارہی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے کہاں تک پہنچیں گے؟ نتائج کیا نکلیں گے؟ کیا وزیر داخلہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
حکومت کو داخلی محاذ پر ایک اور چیلنج کا بھی سامنا ہے اور لگتا ہے کہ وزیر داخلہ کی موجودگی اور ان کے سامنے شہباز شریف کی مبینہ بے بسی نے اس چیلنج کی شدت کو دوچند کر دیا ہے، پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی دوسری جماعتیں جس طرح بپھری ہوئی ہیں ملک کو درپیش مالی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا تقاضا ہے کہ مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کو فروغ دیا جائے لیکن محسن نقوی کی تقرری کے بعد ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ تحریک انصاف پہلے دن سے محسن نقوی کی جانب داری پر سوال اٹھاتی رہی ہے، ایک نگران سیٹ اپ میں اہم عہدے پر فائز کسی شخص کو اگر کوئی نئی حکومت ایک اہم وزارت سے نواز دے تو اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ متعلقہ شخص ایک خاص ایجنڈے کے تحت انتخابات کی نگرانی کے لیے ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا اور پھر وہ وفاق میں آ کر اپنی باتیں منوانے کی کوشش کرے تو لا محالہ سوچ اس طرف جاتی ہے کہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے آگے لایا گیا ہے، ان حالات میں یہ سوچ ابھرنایا قیاس آرائیاں سامنے آنا کہ وزیر اعظم کے ہاتھ بندھے ہیں تو یہ بات کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کے مشکل فیصلوں میں حصہ دار بن کر اپنی عوامی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی، یہ صورت حال مسلم لیگ (ن)، وزیر اعظم شہباز شریف حتیٰ کہ مملکت پاکستان کے لیے بھی خوش آئند قرار نہیں دی جا سکتی، پھر ملک کو عملی طور سے دیوالیہ پن کا سامنا ہے، امریکہ اور اس کے زیر اثر عالمی مالیاتی ادارے جب سی پیک منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کے سیاسی،ا سٹریٹیجک اور سفارتی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مالی مشکلات کی وجہ سے پاکستان کے لیے امریکہ کی رضا مندی اور چین کا تعاون دونوں یکساں طور سے اہم بلکہ ناگزیر ہے، ان حالات میں ملک کو خارجہ امور کے ماہر کسی وزیر خارجہ کی ضرورت تھی لیکن سب کو نظر انداز کرکے اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ بنانا جن کو خارجہ امور کی الف ب کا بھی پتہ نہیں کتنا صحیح فیصلہ ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ ایک عام آدمی بھی بآسانی لگا سکتا ہے۔