چین: روبوٹ کی صنعت کا بادشاہ
شیئر کریں
روبوٹ کار تیار کرنے والے کارخانوں میں کام کے ساتھ نفاست سے پیسٹری پیک کرنے کا کام بھی انجام دے رہے ہیں
ٹرمپ کاامریکی کارخانوں کی بندش کا دعوی غلط،اس سال ریکارڈ پیداوار ہوئی، بیروزگاری کی وجہ خودکار ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال
تہمینہ حیات نقوی
ڈونلڈ ٹرمپ کوصدر کے عہدے پر فائز کرنے میں فیکٹریوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے بیشتر انتخابی جلسوں میں فیکٹریوں کو موضوع بنایا، ان کاکہنا تھا کہ امریکا میں فیکٹریاں بند ہورہی ہیں ، ان کی پیداوار رک چکی ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں اور لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، میں برسر اقتدار آکر دوبارہ ان بند پڑی فیکٹریوں کو فعال بناﺅں گا اور اس طرح لوگوں کو روزگار ملے گا اور ملک کی معیشت ترقی کرے گی۔ان کاکہناتھا کہ سابقہ حکومتوں کی آﺅٹ سورسنگ کی پالیسی نے امریکی فیکٹریوں کو کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل کردیاہے، یہ قبروں پر لگے کتبے بن کر رہ گئی ہیں ، جن سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
امریکی صنعتوں اور معیشت سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ گھن گرج عام آدمی کو متاثر کرنے میں تو کامیاب رہی لیکن اس حوالے سے ان کے الزامات کی کوئی بنیاد نہیں تھی، ان کی باتوں میں کوئی وزن کوئی حقیقت نہیں تھی ، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی کوئی فیکٹری یاکوئی کارخانہ بند نہیں ہوا بلکہ اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ امریکی کارخانوں اور فیکٹریوں میں2016 کے دوران بھی پیداواری صلاحیتیں عروج پر رہیں اور پیداوار کے اعتبار سے امریکا نے گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ پیداوار حاصل کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا۔
اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کایہ کہنا کہ امریکی کارخانے اور فیکٹریاں کوڑے کا ڈھیر اور قبروں کے کتبے بن چکے ہیں بالکل غلط ہے اور امریکی پیداوار کے اعدادوشمار اس کی مکمل طورپر نفی کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران بڑی تعداد میں امریکی ورکرز بیروزگار ہوئے ہیں،کارخانوں کی پیداوار میں ریکارڈ اضافے کے باوجود بڑی تعداد میں ورکرز کا بیروزگار ہونا بظاہر عجیب سا معلوم ہوتاہے لیکن حقیقت یہی ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔
امریکی کارخانوں میں ریکارڈ پیداوار کے باوجود ورکرز کے بیروزگار ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ کارخانوں نے خودکار ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے ان کو اپنے کارخانوں کا پہیہ گھمانے کے لیے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت نہیں رہی اورمل اور فیکٹری مالکان نے بھاری افرادی قوت کے بغیر ہی پہلے سے زیادہ پیداوا ر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ گزشتہ سال امریکا نے1987 کے مقابلے میں86 فیصد زیادہ اشیا تیار کیں لیکن خودکار ٹیکنالوجی کے ذریعے انھوںنے یہ کارنامہ1987 کے مقابلے میں صرف دوتہائی ورکرز کے ذریعہ یہ سنگ میل عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس سے ظاہرہوتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کارخانوں کو پیداوار میں اضافے پر تو اکسا سکتے ہیں کارخانوں کوزیادہ فعال رکھنے پر تو زور دے سکتے ہیں لیکن وہ فیکٹری اور مل مالکان کو زیادہ افراد کو ملازمت فراہم کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ اب فیکٹریاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ روبوٹس پر لگارہی ہیں، جو بلاتکان بھاری سے بھاری اور انتہائی باریک بینی کا کام بھی بآسانی اور کسی غلطی کے بغیر انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔عام امریکی ورکرز کی طرح ان کے کوئی مطالبات نہیں ہوتے ، اوقات کار کاکوئی تنازعہ نہیں ہوتا، تنخواہوں اور اوور ٹائم کا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا۔روبوٹس کی اس اہمیت کے پیش نظر اب کون مل مالک ان کو چھوڑ کر انسانی افرادی قوت کو ترجیح دے گا۔
کارخانوں اور فیکٹریوں میں روبوٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال اور ان کی افادیت اپنی جگہ لیکن اس حوالے سے ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی کارخانوں اور فیکٹریوں سے مزدوروں اور افرادی قوت کو بیدخل کرنے کے ذمہ دار یہ روبوٹس امریکا میں تیار نہیں ہوتے بلکہ یہ روبوٹس چین تیار کرتاہے اور مل اور فیکٹری مالکان چین کی روبوٹ بنانے والی کمپنیوں کو اپنی مرضی کے مطابق روبوٹس تیار کرنے کے آرڈر دے کر چین سے انھیں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔
چین مختلف اقسام کے صنعتی روبوٹس تیار کرتاہے جن میں بہت بھاری کام سے لے کر انتہائی باریک بینی کاکام کرنے والے روبوٹس شامل ہیں،یہی نہیں بلکہ چین کی کمپنیاں امریکی کارخانے داروں اور مل مالکان کی مرضی کے مطابق ان روبوٹس کو مختلف شکلیں بھی دے دیتی ہیں تاکہ امریکی مل اورفیکٹری مالکان کو انھیں اپنی ملوں اور فیکٹریوں کی گنجائش کے مطابق ایڈجسٹ کرنے میں آسانی ہو،اور ان کے کام میں کسی طرح کی رکاوٹ پڑنے کااندیشہ نہ رہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی تازہ ترین اطلاع کے مطابق چین کے تیار کردہ روبوٹ کار اور بھاری گاڑیاں تیار کرنے والی فیکٹریوں میں بھی کام کرسکتے ہیں اور فوڈز فیکٹری میں بسکٹ یہاں تک کہ پیسٹری بھی انتہائی نفاست سے پیک کرنے کاکام بھی انجام دے سکتے ہیں ۔ یہاں دلچسپ امریہ بھی ہے کہ روبوٹ پہلے پہل امریکا نے ہی ایجاد کیاتھا لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران چین نے اس صنعت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور اس طرح اب چین روبوٹ تیار کرنے والا دنیا کا حیرت انگیز ملک بن چکاہے۔
بین الاقوامی صنعت کاروں کی قائم کردہ روبوٹک فیڈریشن کے فیصلے کے مطابق 2013 میں چین کودنیا میں صنعتی روبوٹس تیار کرنے والا سب سے بڑا ملک تسلیم کیاجاچکاتھا۔اطلاعات کے مطابق اب چین پہلے سے بڑے ہدف کے تعاقب میں ہے وہ روبوٹ کی دنیا کابادشاہ تو بن چکاہے لیکن اب وہ اس صنعت پر اپنی اجارہ داری اتنی مضبوط کرنے کی کوشش کررہاہے کہ آنے والے برسوں کے دوران بھی امریکا سمیت دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک اس کی ہمسری کادعویٰ نہ کرسکے اور دنیا کے تمام ممالک کے صنعت کاروں کو اپنی پیداواری قوت بڑھانے اور افرادی قوت گھٹانے کے لیے چین کے تیار کردہ روبوٹ درآمد کرنے پر مجبور رہناپڑے۔اب چین صنعتوں اورفیکٹریوں میں کام کرنے والے روبوٹس کے ساتھ ہی کھیتوں، کھلیانوں میں خدمات انجام دینے والے روبوٹس تیار کرنے کے ساتھ ہی دوسرے چھوٹے موٹے کام انجام دینے والے روبوٹس بھی تیار کررہاہے جن میں ہوٹلوں میں بیروں کی ذمہ داریاں انجام دینے کے ساتھ صفائی وغیرہ کے کام انجام دینے والے روبوٹس کی تیاری بھی شامل ہے۔
روبوٹس کی صنعتوں کے ماہرین کاکہناہے کہ امریکا کوروبوٹ کی صنعت میں چین کی اجارہ داری توڑنے میں برسوں لگ سکتے ہیں، ماہرین کاکہناہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ روبوٹ کی صنعت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو چین نے کی ہے اور مسلسل اس سرمایہ کاری میں اضافہ کررہاہے۔
ماہرین کاکہناہے کہ اگر امریکا روبوٹ کی صنعت میں چین کی اجارہ داری توڑنا اور اس صنعت میں خود کفیل ہونا چاہتاہے تو اسے بھی اس صنعت کے لیے بھاری سرمائے کاانتظام کرنا ہوگا۔ماہرین نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیاہے کہ وہ روبوٹ کی صنعت کے لیے ابتدائی طورپر 100 بلین ڈالر کے فنڈ کااعلان کریں۔ایک تجارتی میگزین کے پبلشر اورایڈیٹر فرینک نے اپنے جریدے میں روبوٹس کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں حکومت پر زور دیاگیاہے کہ اس صنعت میں بھاری سرمایہ کاری بہت ضروری ہے۔اس مضمون میں خیال ظاہر کیاگیاہے کہ یاتو بھاری سرمایہ کاری کرکے ہم کچھ بہتر پوزیشن حاصل کرنے یا پھر دوسروں کے رحم وکرم کی صورتحال پر چلے جائیں۔مضمون میں خیال ظاہر کیاگیاہے کہ غیر ملکی روبوٹس استعمال کرکے ہم روبوٹس کی تجارت کرنے والے ملکوں میں شامل نہیں ہوسکتے۔ مضمون میں لکھاگیا ہے کہ اگر ہم روبوٹس کی صنعت کو ترقی دینے کے لیے ماہرین کی تیاری پر توجہ نہیں دیں گے اور اس صنعت کے لیے بھاری سرمایہ کاری سے گریز کریں گے تو آج ہم روبوٹ دوسرے ملکوں سے خرید رہے ہیں اور کل دوسرے ملکوں کے روبوٹس کی تیار شدہ اشیا خریدرہے ہوں گے اور ہماری افرادی قوت بیروزگاری کی دلدل میں پھنستی چلی جائے گی۔مضمون میں لکھاگیاہے کہ آج امریکی عوام چینی ساختہ، چینی عوام کی تیارکردہ اشیا استعمال کرتے ہیںاور کل امریکی عوام امریکی ساختہ چینی روبوٹس کی تیار کردہ اشیا استعمال کررہے ہوں گے۔