میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سید علی گیلانی کی آٹھ سالہ نظر بندی

سید علی گیلانی کی آٹھ سالہ نظر بندی

منتظم
هفته, ۶ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

پہلے (آخری قسط)
سے کشمیری بزرگوں ،نوجوانوں اور ماؤں و بہنوں میں ’’پر امن جدوجہد‘‘کا ایک ذہن بن گیاتھا حتیٰ کہ 2009ء میں ’’نیلوفر اور آسیہ قتل ،2010ء میں مژھل فرضی انکاؤنٹر پر بے مثال ’’پُر امن احتجاجی تحریک ‘‘2013ء میں افضل گورو کی شہادت پر شدید عوامی ردعمل اور 2016 ء میں ’’عالمی سطح ‘‘کا ریکارڈانتفاضہ کی قیادت سید علی شاہ گیلانی نے دوسرے لیڈران سے مشاورت کے بعد جاری رکھی ۔یہاں بھارت ڈاکٹر امبید کر کی تشکیل کردہ قانونی کتاب کو بھول کر وہی کچھ کشمیریوں کے ساتھ کرنے لگا جو برطانیہ ایک عرصے تک بھارتی عوام کے ساتھ کرتا رہا ۔ اس نے پرامن جدوجہد کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے لیڈروں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند رکھا یا سید علی شاہ گیلانی کی طرح نظر بند ۔حیرت یہ کہ بھارت کی خواہش اب منفی حدود کو پھلانگتے ہو ئے اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ کشمیریوں کے ہاتھ میں جھنڈوں اور بینروں کے برعکس بندوق دیکھنے کامتمنی ہے تاکہ بندوق کے بہانے کشمیر میں کھلے عام مسلمانانِ کشمیر کا قتل عام کیا جاسکے ۔جمہوریت اور سیکولرازم کا جھوٹا ڈھنڈورچی بھارت کشمیریوں کے پر امن احتجاج جیسے تسلیم شدہ بین الاقوامی حق کو بھی صرف اس لیے طاقت سے کچل رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا کشمیریوں کے منشا اور آرزو سے واقف ہو جاتی ہے ۔سید علی شاہ گیلانی پرامن قوم کی پرامن تحریک کے جذبے کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کی نا صرف قیادت کرتے ہیں بلکہ اب2016ء سے میر واعظ کشمیر محمد عمر فاروق ، محمد یسٰین ملک اور دیگر لیڈران سے مشاورت کے بعد قوم کے سامنے نقش راہ بھی رکھتے ہیں ۔بھارت کو سید علی شاہ گیلانی کے مسلم متحدہ محاذجیسے’’جمہوری اتحاد‘‘ سے بھی نفرت تھی تو اس کو کچلنے کے لیے تمام تر قوت استعمال میں لا کر الیکشنوں میں جیت کو شکست میں تبدیل کردیا ۔جب اسی الیکشن کی کوکھ سے مایوسی کے بعد بندوق سامنے آئی تو بھارت کی نفرت شعلوں میں تبدیل ہوگئی یہاں تک کہ ایک لاکھ انسان قتل ہو گئے اور دس ہزار لاپتہ!
آخر بھارت کشمیری لیڈر شپ سے کیا چاہتا ہے ؟نا اس کو ان کی الیکشنوں میں حصہ لیکر جمہوری طرزجدوجہد راس آتی ہے نا ہی پر امن جدوجہد ۔تو پھر کشمیری لیڈرشپ پر تمام تردروازے بند کرنے کے بعد وہ کشمیر میں نوے سے پہلے پرامن حالات بحال ہونے کے خواب کیوں دیکھتا ہے؟ کیا کشمیر میں ایک لاکھ لوگ قتل نہیں ہوئے ہیں ؟کیا اتنے بڑے انسانی المیے کو کشمیری قیادت نظر انداز کر کے دلی کے مرضی کا راگ الاپنے کی ہمت کرے گی ۔یقینی طور یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سید علی گیلانی یا کوئی اورلیڈر شیخ محمد عبداللہ کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔دلی والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس پہلے سے اپنے ہم نواؤں کی بہت بڑی کھیپ موجود ہے جو دلی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور دلی کے دعوے کے مطابق کشمیر کی آبادی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے تو پھر انہیں حریت لیڈران کو کھلی آزادی فراہم کرنے میں تردد کیوں ہے؟ ؟2010ء میں عمر عبداللہ نے سید علی گیلانی کے گھر پر سے چند روز کے لیے پہرہ ختم کیا ۔حسبِ معمول سید علی شاہ گیلانی نے صرف ایک دن پہلے کی اطلاعات پر کولگام،شوپیان اور کپوارہ میں چند ایک پُر امن جلسوں کاانعقاد کیا تو لوگوں کاسمندر دیکھ کردلی سکتے میں آگئی حتیٰ کہ عمر عبداللہ بھی گھبراہٹ میں مبتلا ہوگیا اور اس نے صرف دس روز بعد سید علی گیلانی کو دوبارہ نظر بند کر دیا ۔گویا دلی کی خواہش کشمیر کے حوالے سے یہ ہے کہ اگر چہ ہماری قانون کی کتاب میںصاف صاف یہ درج ہے کہ ہر فرد یہاں اپنی مرضی سے الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور ووٹر اپنی مرضی سے ان میں سے جس کو چاہے منتخب کر سکتے ہیں، مگر مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور کشمیریوں کے لیے بالعموم ’’دلی کا اصول ‘‘یہ ہے کہ آپ اسی کو منتخب کرو جو ہمارا منظورِ نظر ہو، نہیں تو ہم اپنے منشا کے خلاف نمائندے کو چوریاں کر کے بھی ہرا سکتے ہیں ۔اسی طرح بھارت کی سرحدوں کے اندر رہنے والے ہر شہری کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے مگر اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ اس کے اوپر ہماری مہر لگی ہو نہیں تو ہر وہ احتجاج انتہا پسندی کے زمرے میں شامل ہوگا جو ہمارے منظور نظر افراد کے سوا کسی اور کی قیادت میں کیا جائے ۔

سید علی گیلانی ہی نہیںبلکہ ان کے دست راس محمد اشرف صحرائی اور میر واعظ کشمیرمولوی عمر فاروق کو بھی ہر دوسرے روز نظر بند رکھا جاتا ہے ۔محمد یسٰین ملک کو ہر دوسرے روز گرفتار کر کے سینٹرل جیل کی زینت بنادیا جاتا ہے ۔گیلانی صاحب کی تحریک حریت کے بیشترذمہ داران اور اراکان جیلوں میں بند ہیں ۔دس بارہ افراد کو پہلی بار این ،آئی ،اے نے کشمیر سے گرفتار کر کے دہلی کے تہاڑ جیل میں بند رکھا ہے ۔ڈاکٹر محمد قاسم ،ڈاکٹر محمد شفیع خان (شریعتی)،غلام قادر شیخ ،نذیر احمد اور کئی درجن نوجوان کئی کئی سالوں سے جیلوں میں بند ہیں ۔جن میں اکثریت ان قیدیوں کی ہے جو پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں ۔آسیہ اندرابی اور فہمیدہ صوفی کوچند روز قبل نو ماہ بعد جیل سے رہا کیا گیا ۔گویا بھارت کشمیری آزادی پسند سیاسی لیڈرشپ اور کارکنان کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ پر امن ذرائع جدوجہد کے راستے آپ کے لیے بند ہیں۔ایسے میں القائدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو پنپے کا موقع ملتا ہے اور نوجوانوں میں مایوسی کی لہر دوڑتی ہے اور قدرتی طور پر وہ ریاستی جبر کا جواب جبر سے دینے کے لیے اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور پھر دلی کے ’’حواس باختہ‘‘ٹیلی ویژن چینلز پر براجمان اینکروں کی چیخ و پکار ،فوج اور پولیس کی گولی ،پیلٹ اور گرفتاری سے یہ نوجوان نہیں گھبراتے ہیں بلکہ ان تمام کاروائیوں کو اپنے لیے ’’میعارِ حق‘‘قرار دیتے ہیں ۔اس موقع پر کسی عالم کا علم اور کسی دانشور کی دانشوری بے سود اور بے کار ہو جاتی ہے اور بسااوقات معاملات عراق اور شام جیسے خوف ناک رخ پر چلنے شروع ہو جاتے ہیں ۔

سید علی گیلانی عمرکے اس مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاںانسانیت تقاضا کرتی ہے کہ انہیں بھر پورہمدردی اور شفقت فراہم کی جائے چہ جائیکہ مکمل نظر بندی ۔آٹھ برس سے ان کی رہائیش گاہ پر نہ صرف پولیس اور سراغرساں اداروں کے اہلکاروں نے ڈھیرے ڈال رکھے ہیں بلکہ اب 2016ء سے اس پہرے میں سی آر پی ایف بھی شامل کی جا چکی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ پولیس ہر آنے والے مہمان کا اندراج ایک رجسٹر میں کر کے گویا آنے والوں کو نہ آنے کا انتباہ دیتی ہے ۔حد یہ کہ اب ہر وقت کیمروں سے گیٹ پر صورتحال کو فلمایا جاتا ہے گویا یہ حیدرپورہ نہیں بلکہ جیل خانہ ہے جہاں قید سیاسی لیڈر نہیں بلکہ کوئی خونخوار قاتل ہو ۔خود بھارت کے نامی لیڈرانگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے نام پر کئی مرتبہ جیل جا چکے ہیں مگر کیا کبھی گاندھی جی،مولانا ابوالکلام آزاد ،مولا نا شوکت علی اور دیگر مسلم و غیر مسلم لیڈران کو ایسی صورتحال پیش آئی ہے جس صورتحال سے کشمیری لیڈرشپ کو سابقہ اور پالا پڑا ہے ؟۔ٹھیک ہے یہ اب گاندھی کا ہندوستان نہیں بلکہ مودی کا ملک ہے مگر کیا مسائل کو حل کرنے کا شائستہ طریقہ کار یہی ہو سکتا ہے جبکہ خود بھارت مسئلہ کشمیر کی حقانیت کا اعتراف کئی بار کر چکا ہے ایسے میں عقل ،قانون اور اخلاق تقاضا کرتا ہے کہ بھارت ’’عمر رسیدہ اوربیمار سید علی گیلانی ‘‘ کو بلا توقف اوربغیر حیل وحجت کے نظر بندی ختم اور پابندیوں سے آزاد کر کے خوشگوار ماحول تیار کرے تاکہ آزادی پسندوں میں ایک مثبت پیغام بھیجنے کا آغاز ہو اور پتہ چلے کہ جمہوریت کے دعویدار بھارت نے اپنی سیکولر روایات کی پابندی کرتے ہو ئے گاندھی جی کے پیغام اہنسا کو ابھی بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ (ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں