میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چمن کی سرحد پر چیکنگ کے خلاف افغان باشندوں کی ہنگامہ آرائی

چمن کی سرحد پر چیکنگ کے خلاف افغان باشندوں کی ہنگامہ آرائی

ویب ڈیسک
بدھ, ۵ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن کی سرحد پر چیکنگ کے خلاف افغان باشندوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد فورسز اور مشتعل مظاہرین کے درمیان ہوائی فائرنگ، لاٹھی چارج اور شیلنگ سے ایک شخص جاں بحق اور 7 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 10 افرادکے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔اطلاعات کے مطابق کشیدگی کے باعث پاک چمن باب دوستی گیٹ بند کردیا گیا ہے۔خبروں کے مطابق گزشتہ روز مشتعل افراد اور فورسز کے درمیان سرحد کے دونوں جانب آنے جانے کے دوران شناختی کارڈ چیک کرنے کی وجہ سے کشیدگی پائی گئی۔ مشتعل افراد نے فورسز کی جانب سے شناختی کارڈ دکھانے کے مطالبے کیخلاف احتجاج کیا جس کے بعد فورسز نے باب دوستی گیٹ بند کر دیا‘ مشتعل مظاہرین نے فورسز پر پتھراﺅ کیا اور فورسز کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کر نے کے لیے شیلنگ، ہوائی فائرنگ کی گئی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ افغانستان سے آتے ہوئے بارڈر کے اس پار لمبی قطاروں میںکھڑا کیا جاتا ہے، اسی طرح پاکستانی حدود میں آئی ڈی کارڈ مانگتے ہیں جس کے وجہ سے لو گوں کو آنے جانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔تاہم جھڑپوں کے2گھنٹے بعد سرحد کو کھول دیا گیا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کمیٹی برائے امن وامان کے اجلاس میںپنجاب کے داخلی اورخارجی راستوں کی نگرانی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر یہ واضح کیا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار دھرتی کا بوجھ ہیںاوردہشت گردی کے ناسورکے خاتمے کے لیے پوری قوم متحد ہوچکی ہے۔ انشااللہ اتحاد کی قوت سے ملک کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کر کے اسے امن کا گہوارا بنائیں گے۔
یہ ایک واضح امر ہے کہ پاک افغان تعلقات میں کبھی گرم جوشی نہیں دیکھی گئی‘ دونوں ممالک میں عام طورپرسردمہری رہی جبکہ یہ سرد مہری کبھی کبھی کشیدگی کاسبب بھی بنتی رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میںسرد مہری اور کشیدگی کا عنصر قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس وقت سامنے آگیا تھا جب اس وقت کے افغان حکمراں ظاہرشاہ کی حکومت نے نوزائیدہ مسلم مملکت کو تسلیم کرنے اور شانہ بشانہ ہونے کے بجائے اقوام متحدہ میں اس کی مخالفت کی تھی۔ ظاہر شاہ معزول ہوئے‘ اس کے بعدبر سر اقتدار آنے والے حکمرانوں میں کوئی طبعی موت مرا‘ کوئی پھانسی چڑھا اور کوئی قتل ہوا، مگر دورِاقتدار کے دوران ہر ایک نے پاکستان کی جانب سے معاونت اور اشتراک کے رویے کے باوجود پاکستان کی مخالفت کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنایا ،افغان رہنماﺅں کی یہ روش اس حقیقت کے باوجود جاری رہی کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی اسلامی اخوت کے بندھن میںبندھے ہوئے ہیں، یہی نہیں بلکہ پاکستان اور افغان عوام کے درمیان خون کے رشتے بھی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی گئی‘ اسے نقصان پہنچانا تو دور کی بات ہے‘ پاکستان نے ہمیشہ ہر آڑے وقت میں افغانستان کی حکومت اور عوام کا ساتھ دیا ہے لیکن پاکستان کو جب کبھی مصائب کا سامنا کرنا پڑا، افغانستان نے کبھی مدد و تعاون کی کوشش نہیں کی ‘ پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں ہمیشہ ایک اچھے پڑوسی اور اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا۔ افغانستان پر روس کی فوج کشی کے دور میں لاکھوں افغان دربدر ہوئے تو ان میں سے 30 لاکھ سے زائد افغانوں کے لیے پاکستان نے اپنے بازو کھول دیے‘ ان کو گلے لگایا۔ آج ان افغانوں کو پاکستان میں رہتے اور پاکستان کے وسائل استعمال کرتے ہوئے 35 سال ہوگئے ہیں۔ کچھ حلقوں کی طرف سے افغانوں کو نکال باہر کرنے کے مطالبات سامنے آتے ہیں مگر حکومت ان کو باوقار طریقے سے واپس بھجوانا چاہتی ہے۔ باعزت واپسی کے لیے افغان حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں مگر حامد کرزئی اور اشرف غنی انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے یکساں پالیسی رہی ہے۔ دونوں نے اپنے اقدامات سے خود کو امریکا کی کٹھ پتلی اور بھارت کا پٹھو ثابت کیا ہے۔جبکہ بھارت کے لیے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے‘ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا نہ صرف کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا بلکہ ایسے مواقع خود پیدا کرکے اپنی خباثت اور مکاری کا ثبوت دیتا ہے۔ وہ شروع سے افغان حکمرانوں کو پاکستان کیخلاف استعمال کرتا چلا آیا ہے۔
نائن الیون کے بعد افغانستان سے ہوتی ہوئی دہشت گردی پاکستان میں داخل ہوئی تو بھارت نے دہشت گردی کی اس آگ کو الاﺅ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ افغان سرزمین کو پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا۔ پاکستان نے بارڈر مینیجمنٹ کی کوشش کی تو بھارت کے ایماپر افغان حکمرانوں نے اسے ناکام بنانے کے ممکنہ ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے۔
افغان حکومت پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتی ہے‘ امریکا بھی کہتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ اگر ایسا کچھ ہے تو ان دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بارڈر سیل کرنے اور انٹری پوائنٹس پر چیکنگ سے اچھا کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ افغانستان کی طرف سے بارڈر مینیجمنٹ کی شدید مخالفت اس کی بدنیتی اور بھارتی ایجنڈے پر کاربند ہونے کا ثبوت ہے۔
قائداعظم نے فاٹا کے لوگوں کو پاکستان کا بازوئے شمشیرزن کہا تھا‘ ان کی موجودگی میں پاکستان نے کبھی مغربی سرحد کی حفاظت کی ضرورت محسوس نہیں کی مگر جب امریکا نے روس کیخلاف لڑنے کے لیے تیار کئے جانیوالے مجاہدین کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرنے کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دیا تو ان میں کچھ مضبوط اور طاقتور ہو کر امریکا کے گلے پڑ گئے اور پھر یہی مجاہدین امریکی نظر میں دہشت گرد قرار پائے ۔ نائن الیون کے بعد امریکا ان کے خاتمے کے لیے نکلا تو پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا نے جس طرح ”مجاہدین“ کو استعمال کرنے کے بعد تنہاچھوڑ دیا تھا‘ اسی طرح افغان جنگ کے بعد جس میں پاکستان اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا‘ پاکستان کوبھی نظرانداز کردیا۔
طالبان حکومت کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومت میں آئے۔ امریکا اور اتحادیوں کی افواج کا بڑا حصہ واپس جا چکا ہے‘ اس کے باوجود افغانستان میں امریکا معاملات کو کنٹرول کر رہا ہے۔ پاکستان نے امریکا کو افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے کے ثبوت دکھائے مگر امریکا بھارت کیخلاف نوٹس لینے اور پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو حوالے کرنے پر تیار نہیں۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق پاکستان نے افغان سرحد سیل کرنے‘ انٹری پوائنٹس پر دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کے سخت اقدامات کیے تو جہاں افغان حکومت نے واویلا مچایا‘ وہیں پاکستان میں بھارت اور افغان حکمرانوں کے منظور نظر لوگوں نے بھی دہائی دینا شروع کردی۔
پاکستان میں30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں‘ بھارت ان میں کچھ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے چلنے والوں کو انہی میں سے کچھ لوگ پناہ دیتے ہیں۔تاہم تمام پناہ گزینوں کو پاکستان کیخلاف اور بھارت کے لیے کام کرنے کا موردِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا‘ ان میں کالی بھیڑوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو سکتی ہے جو آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جلانے میں ممدومعاون ہو رہی ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے دوران ایسے ایجنٹوں‘ جاسوسوں‘ دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں کی تلاش ہے۔
وہ سنہرا دور تھا جب پاک افغان سرحدکھلی رہتی تھی‘ سرحد کے دونوں جانب آمدورفت پر کوئی قدغن‘ پابندی اور مشکل نہیں تھی۔ سرحد کے دونوں جانب عزیزداریاں اور رشتہ داریاں ختم نہیں ہو سکتیں۔ آج بھی سرحد کے دونوں جانب آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم سیکورٹی کے نکتہ نظر سے کچھ مشکلات ضرور ہیں۔ ان حالات میںسرحد پار آنے جانیوالوں کو اداروں سے تعاون کرنا ہوگا جو خود ان کی جان و مال اور اولاد کے لیے بھی ضروری ہے۔ شناختی کارڈ اور مطلوبہ دستاویزات ہونے کے باوجود اداروں کو مشکوک افراد کی سکروٹنی کا اختیار ہے۔ اس سے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو دشواری محسوس ہو سکتی ہے‘ پرامن شہریوں کو نہیں۔ یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ ہو سکتاہے کہ افغان انتظامیہ کے ایماپر پاکستان کے سیکورٹی انتظامات اور اقدامات کو سبوتاژکرنے کے لیے احتجاج اور مظاہرے کرائے گئے ہوں۔ پرامن لوگ شناختی کارڈ طلب کرنے پر اسلحہ نکال کر فوج کا مقابلہ نہیں کرتے۔ یہ خناس پاکستان دشمن ذہنیت کا عکاس ہے۔سرحد کے دونوں جانب پرامن شہریوں کو ایسے لوگوں پر نظر رکھنی چاہیے جو دشمن کی انگیخت پر سرحد پر بے یقینی کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں،حکومت کو ایسے منصوبوں کاپتہ چلا کر اس کو عالمی برادری ، اقوام متحدہ اور خاص طورپر امریکا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ عالمی برادری کو پاکستان کی نیک نیتی اور افغان حکومت کی بدطینتی کا اندازہ ہوسکے،اور امریکی حکام پر افغان انتظامیہ کو اپنی روش بہتر بنانے پر مجبور کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا جاسکے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں