خفیہ دستاویزات نے عالمی ادارہ صحت اور چین کے د رمیان تعلقات کا بھانڈا پھوڑ دیا
شیئر کریں
امریکی میڈیا نے الزام عائد کیا ہے کہ کرونا کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں چین کی طرف سے دانستہ طور پر تاخیر کی گئی۔چین کے اس طرز عمل سے اقوام متحدہ کے عہدیداروں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے کیونکہ ان کے پاس جان لیوا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے ضروری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔در حقیقت چین نے اپنی تین سرکاری لیبارٹریوں کی معلومات کو مکمل طور پر ڈی کوڈ کرنے میں کامیابی کے باوجود جینیاتی نقشہ یا وائرس جینوم کی اشاعت کے لیے ایک ہفتہ سے زیادہ کا انتظار کیا۔امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق درجنوں انٹرویوز اور داخلی دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ چینی محکمہ صحت کے اندر معلومات کی کڑی نگرانی کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔چینی سرکاری لیبارٹریوں نے اس جینوم کو اس وقت تک جاری نہیں کیا جب تک کہ ایک اور لیبارٹری نے اسے 11 جنوری کو وائرس سے ماہر ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا تھا۔اس کے باوجود تنظیم نے جنوری میں منعقدہ داخلی اجلاسوں ں کے ریکارڈ کے مطابق چین نے مریضوں اور وائرس سے متاثرہ کیسز کے بارے میں تفصیلی اعداد و شمار کو کم سے کم مزید دو ہفتوں کے لیے پیش کرنا معطل کردیا تھا۔رپورٹ کے مطابق حاصل کردہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے چینی حکومت سے معلومات کے حصول کے لیے عوامی سطح پر چین کی تعریف کی۔ تاہم انہوں نے جنوری کے چھٹے ہفتے کے دوران منعقدہ اجلاسوں کے دوران شکایت کی کہ چین کافی معلومات اور اعداد و شمار فراہم نہیں کررہا ہے کہ کس طرح لوگوں میں وائرس پھیلتا ہے یا اسے پوری دنیا میں لاحق خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس وائرس کے بارے میں مزید معلومات کے حصول میں وقت لگے گا۔کویڈ 19 پر ڈبلیو ایچ او کے ردعمل کے لیے ایک امریکی ماہر صحت اور تکنیکی رہ نما ماریا وان کرخف نے کہا کہ ہم انتہائی کم معلومات کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے وائرس سے نمٹنے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔