اسٹیل ملزکی اراضی پرغیرقانونی تعمیرات جاری
شیئر کریں
قبضہ مافیاعوام سے لاکھوں روپے بٹورنے میں مصروف
(رپورٹ :طارق راؤ)ضلع ملیر کراچی کی اسٹیٹ لینڈ کی ناکلاس زمینوں پر عرصہ دراز سے سرکاری اراضی پر قبضہ مافیا بغیر کسی خوف کے مختلف ناموں کے ساتھ پلاٹ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ دیہہ کٹیٹروناکلاس 96 کے ساتھ سروے نمبر 10،11اور 12 سے ملحق اسٹیل مل پاکستان کی 25 ایکڑ اراضی پر قبضہ مافیا نے 4 ایکڑ زمین پر پلاٹ فروخت کر کے تعمیرات کا کام شروع کرادیا۔ناکلاس 96 کی 1500 ایکڑ سرکاری اراضی سے 700 ایکڑ زمین کی پاکستان اسٹیل مل براہ راست ملکیت کی دعویدار ہے۔لینڈ گریبروں نے اسٹیل مل انتظامیہ کی آنکھ مچولی سے غریب عوام کے لاکھوں روپے ہڑپ کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ایک جانب پاکستان اسٹیل مل کی انتظامیہ قبضہ شدہ اراضی واگزار کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے تو دوسری جانب تعمیرات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔آج سے تقریباً 41 سال قبل پاکستان اسٹیل مل اس اراضی کی فارم 7 کے مطابق موٹیشن کراکر حقیقی مالک کا درجہ حاصل کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود قبضہ مافیااس اراضی کا اسٹے حاصل کرنا چاہتی ہے۔پاکستان اسٹیل مل انتظامیہ کی جانب سے ڈی سی آفس ملیر میں دی گی درخواست کے مطابق مؤقف سامنے آیاہے کہ ڈی سی ملیر قبضہ مافیا کی جاری تعمیرات کے خلاف ایک مکمل آپریشن کریں۔اور قانونی کاروائی عمل میں لائیں۔اہل علاقہ پیر سرہندی گوٹھ کے عوام بھی سراپا احتجاج ہیںاور متعلقہ ادارں سے اپیل کرتے ہیںکہ پرانے گوٹھ کی آڑ میں قبضہ شدہ اراضی پر نئے گوٹھ بنانے کا سلسلہ بند کرایا جائے کیونکہ غیر مقامی افراد کی وجہ سے مقامی افراد کی بنیادی حقوق کی حق تلفی کا سلسلہ شروع ھو جائے گا اور یہ غیر مقامی افراد افغان بستیاں آباد کر لیں گے۔باوثوق ذرائع نے روزنامہ جرأت سے انکشاف کیا کہ 28 دسمبر 2021 کو ڈپٹی کمشنر ملیر محکمہ ریونیو کے آفس میں اسٹیل مل انتظامیہ کی جانب سے موصول کرائی گئی درخواست میں تحریری طور پر لینڈ گریبروں کی مکمل نشاندہی کی گئی۔ان لینڈ گریبروں میں 1۔غلام یاسین 2۔مہتاب علی راجپر 3۔خالد محمد پلیجو 4۔علی جان 5۔حبیب راجپر 6۔ خالد یار محمد 7۔عاشق 8۔عبدالرشید اور دیگر شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق غلام یاسین نامی شخص سابقہ مختیار کار کے لیے پرائیویٹ کارندے کے طور پر کام کرتا رہا ہے ، یہ شخص نامزد لینڈ گریبروں کے لیے بطور مخبر ڈی سی آفس ملیر میں براجمان پایا گیا تاکہ لینڈ گریبروں کے خلاف ھونے والی کاروائی کی خبر بر وقت دے سکے۔ذرائع کے مطابق نامزد لینڈ گریبروں نے جعلی وستاویزات تیار کی ہیں اور ان دستاویزات کے مطابق 10-11-2021کو ملیر کورٹ میں حکم امتناعی کے لیے سول سوٹ داہر کیا گیا ہے سول سوٹ نمبر 1029/2021 پاکستان اسٹیل مل کی کروڑوں کی اراضی کوڑیوں کے بھاؤ فروخت ، فی پلاٹ کی قیمت 2 لاکھ۔ لینڈ گریبروں نے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بناکر اور سستے پلاٹ کا جھانسہ دے کر اب تک لاکھوں روپے بٹور لیے۔جبکہ پلاٹ خرید کر گھر تعمیر کرنے والے افراد اس بات سے لا علم ہیں کہ یہ اراضی پاکستان اسٹیل مل کی ملکیت ہے۔پاکستان اسٹیل مل انتظامیہ کی نالائقی ،نااہلی اور پر اسرار خاموشی کے پیچھے کچھ راز پوشیدہ ہیں ( جن کا ذکر بعد ازاں کیا جاے گا ) اسٹیل مل کے ترجمان نہ ہونے کی وجہ سے حالات و واقعات کی ترجمانی کا فقدان ہے۔روزنامہ جرأت نے سرکاری اراضی ناکلاس 96 پر حکومتی احکامات نہ ماننے والے لینڈ مافیا کا کھوج لگایا تو موجودہ اسسٹنٹ کمشنر بن قاسم ملیر نوشاد شہانی اور ایک ہفتہ قبل چارج لینے والے محکمہ ریونیو کے مختیار کار موسیٰ موراہی صاحبان کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور مؤقف دینے کی درخواست کی تو روزنامہ جرأت کی ٹیم کے فراہم کردہ شواہد کا اسسٹنٹ کمشنر نوشاد شہانی نے ناصرف بغور جائزہ لیا بلکہ وائلیشن کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کا عندیہ دیا اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ لینڈ کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھا جبکہ پاکستان اسٹیل مل ایڈمنسٹریٹر کے زمرے میں بھی اسی طرح کی حکمت عملی اپنانے کی اشد ضروت ہے، پاکستان اسٹیل مل ایڈمنسٹریٹر کو اسٹیل مل کی سکیورٹی امور پر دھیان دینے کی فوری ضروت ھے اسٹیل مل کے سکیورٹی امور بھی مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔اداروں کو بدنام کرنے والے غلام یاسین جیسے افراد کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہیے جو اداروں کے افسران کو بکاؤ سمجھتے ہیں اور وائلیشن کرنے والوں کے خلاف بھی انکوائری کرائی جائے تاکہ قبضہ مافیا عناصر کی سر کوبی عمل میں لاہی جائے۔دیگر دونوں صورتوں میں نقصان غریب عوام کا ہے۔