میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ناکامی چھپانے کیلئے الزام تراشی کا کھیل

ناکامی چھپانے کیلئے الزام تراشی کا کھیل

جرات ڈیسک
منگل, ۳ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

ٍ عمران خان کے حامیوں کو اسلام آبا د کے ڈی چوک تک پہنچنے سے روکنے میں ناکامی اور پھر اس ناکامی کو چھپانے کیلئے لائٹیں آف کرکے مکمل بلیک آؤٹ میں نہتے مظاہرین کو بندوق کے زور پر اسلام آباد سے نکلنے پر مجبور کرنے کے بعد حکومت ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں تنقید کا شکار ہے ۔اس تنقید کو روکنے کیلئے اب ایک نئی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جو حکومت کے بقول ریاست کے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث افراد کی نشاندہی کرے گی،دوسری طرف اسلام آباد میں نہتے مظاہرین کے ہاتھوں حکومت کے تعینات کردہ مسلح جتھوں کی پسپائی کی خفت مٹانے کیلئے اب وزرا نے مخالفین پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے ،عمران خان کا حامی طبقہ اس الزام تراشی کا اسی بلکہ حکومتی وزرا سے بھی زیادہ تلخ انداز میں جواب دے رہا ہے ۔ دراصل حکومت کی جانب سے کی جانے والی الزام تراشی کا جس مہارت سے جواب دیا جارہا تھا اسی کے پیش نظر وزیر اعظم کو یہ ٹاسک فورس قائم کرنا پڑی ہے ۔اس طرح یہ کہا جاسکتاہے کہ پاکستان میں آجکل الزام تراشی اور ملبہ منتقلی کا کھیل جاری ہے،جس میں اپوزیشن ساری خرابیوں کا ذمہ دار حکومت کو اور حکومت اپوزیشن کو قرار دے رہی ہے، فی الوقت عمران خان کی رہائی پی ٹی آئی کے لیے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ عمران خان کو ایوان سیاست سے دور رکھنا حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔دونوں کی اس جنگ میں عوام پس رہے ہیں جن کے نام پر یہ دونوں سیاست کرتے ہیں،حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس بلیم سے ظاہرہوتاہے کہ ان دنوں پاکستان میں جمہوریت اپنی ساکھ یا اعتماد کے بحران سے گزر رہی ہے اور لوگوں کا اس پر اعتماد تاحال مستحکم نہیں ہوپارہا ہے۔ لوگوں کی عمومی رائے یہی ہے کہ جمہوریت اگرچہ ہماری ضرورت ہے لیکن جو نظام چلایا جارہا ہے اُس میں جمہوری اصولوں کی اہمیت زیادہ نہیں ہے بلکہ جمہوریت کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں ہے۔دنیا میں موجود حکمرانی کے تمام نظاموں پر نظر ڈالیں تو باقی نظاموں کے مقابلے میں جمہوری نظام ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ نظام محض معیشت کی بہتری تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ یہ شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق، آزادیِ اظہار، جان و مال کے تحفظ، تعلیم و صحت کے حق، مضبوط اور شفاف نظام انصاف اور گورننس کے جدید نظام کی ضمانت دیتا ہے۔اس میں محروم اور کمزور طبقات کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی عوامی رائے عامہ کی بنیاد پر حکومتی یا سیاسی نظام کی تشکیل ہوتی ہے اور عوام کو ہی موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی حکومت کا انتخاب کریں۔ اس کاایک اہم پہلو لوگوں میں جمہوریت کے بارے میں اپنی ملکیت کا تصور ہے، جس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ہی میں ان کے تمام سیاسی، قانونی، آئینی، معاشی اور معاشرتی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر لوگ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس نظام کو بنیاد بناکر اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب جمہوریت کے نام پر چلایا جانے والا نظام بھی خود کو لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے پیش کرے۔ کیونکہ جہاں بھی جمہوریت پر مبنی نظام لوگوں کے مسائل حل کرتا ہے وہاں جمہوریت سیاسی نظام میں اپنی ساکھ بھی قائم کرتی ہے، اور اپنی قبولیت کے عمل کو بھی ممکن بناتی ہے۔ جبکہپاکستان میں جمہوریت نہ صرف کمزور ہے بلکہ کئی دہائیوں سے اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ کیا ہم واقعی جمہوری نظام کا احساس رکھتے ہیں؟ یا جو نظام چل رہا ہے، وہ جمہوری تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس وقت بہت سے داخلی و خارجی مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا موجودہ نظام حکومت ہے، اس نظام سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہم جمہوریت کے بجائے ہائبرڈ نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام میں جمہوری تصورات عملاً نافذ نہیں ہیں۔ جمہوری نظام کی یہ ناکامی محض کسی ایک کردار تک محدود نہیں، بلکہ سیاسی اور غیر سیاسی سمیت قانون، سول سوسائٹی، میڈیا سمیت سبھی علمی و فکری افراد ناکامی کا شکار ہیں، اور ان کے کردار کی وجہ سے ہی ہماری جمہوری درجہ بندی پر عالمی سطح پر سنجیدہ اور سنگین نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا جمہوری نظام روایتی طاقت ور طبقات کے کنٹرول میں ہے، جب کہ عوام اس نظام میں یرغمالی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسی ریاستیں جہاں سیاسی مہم جوئی نمایاں ہو اور سیاسی حکومتیں بھی وسائل کو عام طبقوں تک پہنچانے کے بجائے چندہاتھوں تک محدود رکھنا چاہتی ہوں وہاں جمہوری نظام اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اس جمہوری نظام میں عوام کے مقابلے میں خواص کی حکمرانی کے نظام کو طاقت دے رہے ہیں اور محروم اور غریب افراد کا اس نظام میں حصہ محض حکمرانوں کے خیراتی منصوبوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔سیاسی جماعتیں نہ تو خود کو داخلی جماعتی اور سیاسی نظام میں مضبوط بنانا چاہتی ہیں اور نہ ہی اب ان کی سیاست کا محور عوامی مفادات پر مبنی سیاست ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے بھی اپنی سیاسی جدوجہد کو طاقت ور حلقوں کے مفادات تک محدود کرلیا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ اسی کردار سے وہ طاقت کی حکمرانی کے کھیل میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اقتدار میں اپنا حصہ یقینی بنا سکتے ہیں۔آج پاکستان میں جمہوریت کے نام پرجو سیاست ہورہی ہے، چاہے اس میں حزب اقتدار کی سیاسی جماعتیں ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتیں، سب کا محور جوڑ توڑ اور سازش کے ذریعے طاقت کے کھیل کا حصہ بننے کی کوشش ہے۔اگر جمہوریت میں عام اور کمزور آدمی کی سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت تبدیل نہیں ہونی، اور ان کی زندگیوں میں موجود مشکلات کو بھی کم نہیں ہونا اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع بھی نہیں ملنے تو لوگ کیونکر اس نظام پر اعتماد کریں گے؟کیا جمہوریت طاقت ور طبقات کے گرد ہی گھومتی ہے، اور کیا ہم ایک ایسے جمہوری فریم ورک کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھنا چاہتے جو عام آدمی کے اس نظام پر اعتماد کو مضبوط بناسکے؟ یہ معاشی اور سیاسی بدحالی ہے، اس میں لوگوں کا سیاسی، جمہوری اور ریاستی نظام سے لاتعلقی کا احساس بڑھ رہا ہے، اور اس کا نتیجہ غصے یا بغاوت کی صورت میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔قانون سازی کو حکمران یا طاقت ور طبقات کے مفادات تک محدود کردیا گیا ہے۔اس طرح ہم معاشی بدحالی، بے روزگاری، بے ہنگم حکمرانی، سیاسی عدم استحکام، ماحولیات کے مسائل، نظام عدل اور بیوروکریسی کا زوال، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور دہشت گردی کے ساتھ ہم جمہوریت کی ساکھ کو کیسے بچا سکیں گے؟ یہ خود ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ جمہوریت کی ساکھ آئین و قانون کی حکمرانی اور کمزور طبقات کے تحفظ سے جڑی ہوئی ہے۔ان بنیادی اصولوں کے بغیر جمہوریت کا تصور ممکن نہیں، اور ایسی جمہوریت کا ہمیں یا معاشرے میں موجود افراد یا مجموعی طور پر ریاست کے نظام کو کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ جب تک جمہوریت کے نام پر طاقت ور طبقات کی حکمرانی کا نظام ختم نہیں ہوگا اور عوام کی حکمرانی کے نظام کو تقویت نہیں ملے گی، کچھ ممکن نہیں۔
موجودہ صورت حال سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان کو حقیقی جمہوریت کی طرف بڑھنے کے لیے سخت اور بڑے فیصلے کرنے ہوں گے، اور ان میں سب سے بڑا فیصلہ تو یہی ہوگا کہ ریاست سمیت حکومت کے تمام ادارے ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کریں اور ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کرنے کے بجائے سب ہی اپنے اپنے آئینی، قانونی اور سیاسی دائرے میں رہ کر کام کریں۔ہمیں عوامی سطح پر جمہوریت کی ساکھ قائم کرنے کیلئے جمہوریت کے نظام کو براہِ راست عام آدمی کے مفادات سے جوڑنا ہوگا اور اس میں یہ اعتماد بحال کرنا ہوگا کہ جمہوریت ہی ان کے مسائل کا حل ہے۔ لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں موجود جو لوگ بھی انفرادی یا اجتماعی یا ادارہ جاتی سطح پر رائے عامہ بناتے ہیں وہ اپنے کردار میں نئی تبدیلیاں اور نئی جہتیں لانے پر توجہ دیں۔یہ لوگ بھی طاقت ور حکمرانی کے نظام یا افراد کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے عام آدمی اور اس ملک کے سنگین مسائل پر آواز اٹھائیں اور طاقت ور طبقوں پر ایک بڑا دباؤپیدا کریں تاکہ حکمرانی کا نظام سیاسی و جمہوری ہو اور اپنا قبلہ بھی درست کرے۔سیاسی اور جمہوری جنگ ہم سب کو اب ایک نئی سوچ اور جدیدیت کی بنیاد پر لڑنا ہوگی، اور یہ جنگ بھی سیاسی، آئینی و قانونی دائرہ کار میں ہونی چاہئے، اور لوگوں میں یہ سوچ پیدا کی جانی چاہئے کہ وہ سیاسی جماعتوں میں موجود شخصیات کی پوجا یا بت پرستی سے باہر نکل کر ایک بڑے جمہوری فریم ورک میں سب کو ہی چیلنج بھی کریں اور ان کو مختلف محاذوں پر جوابدہ بھی بنائیں۔ اس سوچ کو بالادستی دینی ہوگی کہ موجودہ نظام میں سیاسی جمہوری افادیت کو منوائے بغیر اس فرسودہ نظام کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے موجودہ حکمراں اور حزب اختلاف کے مولانا فضل الرحمان جیسے رہنما ایسا کرنے پر تیار ہوں گے؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں