میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یونان میں کشتی ڈوبنے کا بدترین حادثہ، لوگ مستقبل سے مایوس

یونان میں کشتی ڈوبنے کا بدترین حادثہ، لوگ مستقبل سے مایوس

جرات ڈیسک
پیر, ۱۹ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

یورپی یونین کے کمشنر برائے داخلی امور یلوا جوہانسن نے ایک انٹرویو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ یونان میں کشتی ڈوبنے کا حادثہ تاریخ کا بدترین سانحہ ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ سانحہ یونانی حکام کی جانب سے پناہ گزینوں کو گرفتار کرنے کیلئے غلط طورپر رسیوں کے ذریعے کشتی کو ساحل پر لانے کی کوششوں کے سبب ہوا۔ اگرچہ یونانی حکام نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ لیکن ابتدائی شواہد سے اس الزام میں حقیقت کے عنصر کی موجودگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا، حادثے کا سبب کیاتھا اور اس کا ذمہ دار کون ہے قطع نظر اس کے حقیقت یہ ہے کہ اسمگلرز لوگوں کو یورپ نہیں موت کے منہ میں بھیج رہے ہیں، اطلاعات کے مطابق لیبیا کے ساحلی شہر طبرق سے اٹلی جانے والی کشتی میں 750 سے زائد افراد سوار تھے جن میں 100سے زائد معصوم بچے اور متعدد خواتین بھی شامل تھیں،مبینہ طور پر کشتی پر 310پاکستانی سوار تھے۔ اطلاعات کے مطابق کشتی حادثے میں لاپتہ 500 سے زائد افراد میں 298 پاکستانی بھی شامل ہیں،اس جانکاہ حادثے کے بعد اقوام متحدہ میں مہاجرین کی ایجنسی نے بحیرہ روم میں مزید سانحات سے بچاؤ کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سمندر میں لوگوں کو بچانے کی ذمہ داری بلا تاخیر پوری کی جائے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے کی انکوائری کی ہدایات جاری کر دیں۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان میں پاکستانی سفارت خانے کو واقعے میں ریسکیو کیے جانے والے 12 پاکستانیوں کی دیکھ بھال کی بھی ہدایت دی ہے۔وزیرِ اعظم کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انسانی اسمگلنگ کے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کرکے سزائیں دینے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔وزیرِ اعظم نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھ سمیت پوری قوم کی ہمدردیاں جاں بحق ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں۔
بہتر مستقبل اور خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہو کر ترقی یافتہ ممالک جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے سمندروں کی بے رحم لہروں کے نذر ہونے والے انسانوں کا یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ نہیں ہے۔ چند ماہ قبل بھی ان بے رحم لہروں میں کئی خواب ڈوب گئے اور اب ایک مرتبہ پھر وہی کہانی دہرائی گئی ہے۔ یونان میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار کوٹلی آزاد کشمیر کے لگ بھگ 4 درجن افراد کا اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔ کشتی میں سیالکوٹ کے 9، شیخوپورہ کے 4 نوجوان بھی شامل ہیں۔ کشتی میں سوار ایک ہی خاندان کے12فراد سمیت 28 افراد کا تعلق کھوئی رٹہ کے نواحی گاؤ ں بنڈلی سے ہے اور وہاں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والوں میں سیالکوٹ کے 27 سال کے کاشف بٹ ایجنٹ کو ہوائی جہاز کے ذریعے اٹلی جانے کے لیے 23 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔ ایجنٹ کا تعلق نوشہرہ ورکاں سے ہے جبکہ اس کا پارٹنر ایف آئی اے کا اہلکار ہے۔ یونانی سمندر میں پیش آنے والا یہ سانحہ ہمارے حکمرانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو اس ملک کے نوجوانوں کو روزگار کے ایسے مواقع مہیا نہیں کرسکے جس سے وہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال سکتے اور انھیں بہتر مستقبل کی خاطرملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا،اگر حکمراں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر نوجوانوں کیلئے بہتر روزگار کا کوئی انتظام کردیتے تو شاید اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ملک چھوڑ کر جانے کیلئے زندگی داؤ پر لگانے کی ضرورت نہ ہوتی،یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے کہ اس ملک کا اصل سرمایہ نوجوان زندگی داؤ پر لگارہے ہیں اور بہتر مستقبل کے لیے جان پر کھیل جانے کوتیار ہورہے ہیں، یہ انتہائی تشویشناک ہے۔ جب لوگ یہ جانتے بھی ہوں کہ کام بھی غیر قانونی ہے جان بھی جا سکتی ہے، یہ سفر زندگی کا آخری سفر ہے لیکن پھر بھی پورا خاندان اپنے نوجوان بیٹوں کو موت کے منہ میں جھونک دیتا ہے۔حکام کو اس صورت حال کو تبدیل کرنے پر پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے غیر قانونی طور پر یہ کام کرنے والے بعض افراد کو گرفتار کرلیاہے ماضی میں بھی ایسی گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں، اس طرح کی نمائشی گرفتاریوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک لوگوں کو اپنے ملک میں رہتے ہوئے مستقبل نظر نہیں آئے گا، مسائل حل ہوتے نظر نہیں آئیں گے، لوگ جان پر کھیل کر اپنے آپ کو بے رحم لہروں کے حوالے کرتے رہیں گے۔ ایسے واقعات کے اصل ذمہ دار تو وہ ہیں جو ملک کے نوجوانوں میں مایوسی کی وجہ ہیں۔ جن کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں