من ت±را حاجی بگویم تو م±را ملا بگو،ٹرمپ نواز گفتگو۔ ۔ ۔ حکام کی پراِسرار خاموشی
شیئر کریں
امریکی میڈیا اور سابق امریکی حکومتی اہلکاروں نے پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سفارتی آداب کی خلاف وزری قرار دیا
ٹرمپ کی ٹیم نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایسی باتیں ڈونلڈ ٹرمپ سے منسوب کی گئیں جو کہنا ان کا مقصد نہیں تھا
امریکی نومنتخب صدر سے وزیر اعظم پاکستان کی ٹیلی فونک گفتگومیں حد سے زیادہ امریکی جی حضوری اوراپنے بارے میں میاں مٹھوبننے پر مبنی متن جاری کیے جانے کے بعد سے پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ایسے موقع پر پاکستانی حکام نے سبکی کے باعث خاموشی اختیار کر لی ہے ۔اس گفتگو سے ویسے بھی یوں گمان ہوتا تھا کہ یہ دو ملکوں کے اعلیٰ عہدیداران کی گفتگو” من ت±را حاجی بگویم تو م±را ملا بگو“ (میں تجھے حاجی کہہ کر تعریف کرتا ہوں اور تو مجھے ملا پکار کر تعریف کر) کے مصداق تھی اور اسے مشکوک نظروں سے دیکھا جارہا تھا کہ آیا یہ ہی گفتگو ہوئی ہے یا وزیر اعظم کے مشیروں کی جانب سے دروغ گوئی کی گئی ہے ۔ اور اب ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے متن جاری ہونے کے بعد آپ خو د اندازا لگا سکتے ہیں کہ کیا درست تھا کیا غلط۔
امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عملے کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی وضاحت اور گفتگو کا مختلف متن سامنے آنے کے بعد سے پاکستانی حکام نے چپ سادھ لی ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کی جانب سے رابطہ کرنے پر دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریہ نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا ہمارے پاس ان (ٹرمپ کے عملے ) کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے اس لیے میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔
وزیر اعظم پاکستان نے دو دن قبل یعنی بدھ کو امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دینے کے لیے ٹیلی فون کیا تھا۔ جس کے بعد وزیرِ اعظم ہاو¿س نے روایت کے برعکس دونوں سربراہان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا تمام متن پریس ریلیز کے ذریعے جاری کر دیا۔اس کے نتیجے میں امریکی میڈیا اور سابق امریکی حکومتی اہلکاروں نے پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سفارتی آداب کی خلاف وزری قرار دیا۔اس سلسلے میں پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے وہ کسی اور حکومتی ادارے کی کارروائی سے متعلق تبصرہ نہیں کر سکتے۔جب بھی کوئی نیا صدر آتا ہے تو روایت کے مطابق دنیا کے تمام سربراہان اسے کال کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
نوازشریف کے ساتھ ٹیلی فون پر امریکی منتخب صدر کی گفتگو پر تنقید کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے انتقال اقتدار کے عملے نے اپنے رد عمل میں ایک بیان جاری کیا۔ ٹیم نے دونوں رہنماو¿ں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا متن جاری کیاجو وزیر اعظم نوازشریف کی جانب سے جاری ہونے والے متن سے مختلف ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کی ٹیم نے کہا ہے کہ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان موثر بات چیت ہوئی ہے جس میں باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے پر بات کی گئی۔
رپورٹس میں بغیر کسی مشیر کا نام لیے کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایسی باتیں ڈونلڈ ٹرمپ سے منسوب کی گئیں جو کہنا ان کا مقصد نہیں تھا۔
امریکی منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے تعلقات بڑھانے کی بات کی۔ انھوں نے پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کی اور ہم انھیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے خطے کے تنازعات کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کی بات بھی کی۔ اور ظاہر ہے ان کا واضح اشارہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی طرف تھا۔
پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان پر امریکا میں منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ ماضی میں ان کی جانب سے ٹویٹ کے ذریعے پاکستان مخالف بیانات ہیں۔دو ہزار گیارہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا تھا کہ ’پاکستان ہمارا دوست نہیں ہے۔
خیال رہے پاکستان کی جانب سے شائع ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف سے امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے آپ جو بھی کردار چاہتے ہیں وہ ادا کرنے پر تیار ہوں۔حکومتی بیان کے مطابق ’ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھاکہ وزیراعظم نوازشریف بہترین ساکھ رکھتے ہیں اور زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کے اثرات ہر شعبے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
وزیراعظم کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت پر امریکا کے منتخب صدر نے کہا کہ وہ شاندار ملک کے بہترین لوگوں اور خوبصورت مقامات کا دورہ کرنا پسند کریں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ آپ کا ملک بہت حیران کن ہے اور پاکستانی ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے بات چیت میں ان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ وزیراعظم آپ سے بات کرتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ایسے شخص سے بات کر رہا ہوں جسے کافی عرصے سے جانتا ہوں۔
بیان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ وہ 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے بھی جب چاہیں انھیں فون کر سکتے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستانی وزیر اطلاعات اور وزیر اعظم ہاو¿س سے ردعمل لینے کے لیے کی گئی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
اس سے پہلے امریکی انتخاب میں صدر منتخب ہونے پر وزیر اعظم نوازشریف نے ٹرمپ کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا کہ آپ کا انتخاب یقیناً امریکی عوام اور جمہوری اقدار، آزادی، انسانی حقوق اور آزادانہ کاروبار میں عوام کے دیرینہ یقین کی فتح ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کی یادگار فتح اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ امریکی عوام کو آپ کی قیادت، بصارت اور اپنے عظیم ملک کی خدمت کے جذبے پر کتنا اعتماد ہے۔