غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن
شیئر کریں
(رپورٹ :جوہر مجید شاہ) کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی پاکستان رینجرز کے ساتھ شہر بھر میں غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن کے سبب فراہمی آب میں نمایاں بہتری ۔ادھر واٹر کارپوریشن کی ایک 6رکنی افسران پر مشتمل ٹیم شہر بھر میں رینجرز کی معاونت کے ساتھ پانی مافیا کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں جن میں سر فہرست دلاور جعفری ظہیر حسین، اصغر یعقوب، عبید الرحمن، رضوان احسن اور آغا عباس شامل ہیں۔ باوثوق ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ضلع غربی کے علاقے جنجال گوٹھ ، گلشن معمار اور ایوب گوٹھ سے گزرنے والی 18 کلو میٹر پر مشتمل ” 48″انچ قطر، 66″انچ قطر، k3 اور 72″انچ قطر کی لائن کی ذمہ داری سابق ایگزیکٹو انجینئر دلاور جعفری کے پاس رہی۔ ادھر واضح رہے کہ اسکیم 33 میں 36″انچ قطر کی لائن سے زیر تعمیر پروجیکٹ سمیرا کمفرٹ کو دیے گئے۔ 2انچ کے غیر قانونی کنکشن کی میڈیا پر بارہا نشاندہی جس میں بتایا گیا کہ مذکورہ پروجیکٹ میں دیے گئے غیرقانونی کنکشن میں مبینہ طور پر دلاور جعفری براہ راست ملوث ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس ہاتھ کی صفائی اور وصولی مشن سے متعلق مئیر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب ترجمان کرم اللہ وقاصی چیف ایگزیکٹو سید صلاح الدین ،چیف آپریٹنگ آفیسر اسد اللہ خان کو بھی آگاہ کیا گیا مگر دلاور جعفری کی سیاسی سفارش و پرچی خاصی وزن دار ٹھہری ۔ادھر ذرائع نے بتایا کہ موصوف آج مذکورہ سائٹ کے ایکزیکٹیو انجینئر نہیں مگر علاقے کا پورا سسٹم انکی زیر نگرانی رواں دواں ہے جبکہ تعینات افسر ارشد رشید محض کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا ہے ادھر ان کا ٹرانسفر بھی انھیں بچانے اور بیک فٹ پر رہ کر کاروائیوں کیلے گرین سگنل قرار دیا جارہا ہے۔ واضح اور یاد رہے کہ دلاور جعفری کے دست راست اور فرنٹ مین کھلاڑی حسنین عباس ان کے رشتے میں سالے ہیں اور وہی ان کے سہولت کار ہیں۔ علاقے میں کوئی بھی کام دونوں کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ادھر محکمہ جاتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ محکمے کے 66پانی چوری یا سہولت کاری میں مبینہ طور پر ملوث افسران میں ایک نام ‘ دلاور جعفری ‘ کا بھی تھا مگر اثرو رسوخ کارگر ثابت ہوا اور موصوف اپنے گورکھ دھندوں میں آج بھی مست ہیں ۔ واٹر کارپوریشن کے کئی سینئرز تجربہ کار اور اہلیت و معیار پر پورا اترنے والے کئی افسران دلاور جعفری کی اونچی پرواز اور من مانیوں پر سخت مضطرب اور حیران ہیں کہ اتنے مضبوط شواہدکے باوجود وہ اپنے ساتھ دو عہدے رکھتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ سمیت محکمہ جاتی بائی لاز کی بھی خلاف ورزی ہیں۔مگر متعلقہ محکمے اور ذمہ داران کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریزاں ہیں۔