میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی حکمرانوں کاذہن صاف  کرنے کی ضرورت

امریکی حکمرانوں کاذہن صاف کرنے کی ضرورت

منتظم
منگل, ۲ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز ایک دفعہ پھر امریکا پر یہ واضح کردیاہے کہ وہ پاکستان کودھمکیاں دینے کاسلسلہ بند کردے ،پاکستان ایسی دھمکیوں کی پروا نہیں کرتا اور پاک فوج اپنی سلامتی اور خودمختاری کادفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوںنے یہ بھی واضح کردیاہے کہ پاکستان اب کسی کے لیے نہیں لڑے گا۔

امریکا کوپاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا دوٹوک جواب انتہائی بروقت ہے اورپاک فوج کے ترجمان نے امریکی دھمکیوں کا بروقت جواب دے کر یہ ثابت کردیاہے کہ پاک فوج کی نظریں صرف سرحدوں کے دفاع پر ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ممالک کی سرگرمیوں پر بھی ہے،ان کے اس بروقت انتباہ سے یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی دھمکیاں کسی بھی طور نظر انداز کرنے والا معاملہ نہیں ہے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کئی بار یہ تاثر دیا ہے کہ انہوں نے امریکا کے More Do کے جواب میں More Noکہا ہے ،اس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ پاک فوج کے سربراہ امریکا پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج ’’کرائے کی فوج‘‘ نہیں ہے اور اسے دہشت گردوں سے لڑائی کے عوض امریکی امداد کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ پاکستان کے فوجی دہشت گردوں کے خلاف امریکا کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ پاکستان کے فوجی اس دنیا کو امن کاگہوارہ بنانے کے لیے اپنا فریضہ سمجھ کر اس لڑائی میں مصروف ہیں ،پاک فوج کے ترجمان نے بھی اپنے بیا ن میں یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان کو امریکی امداد کی نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں کے اعتراف کی ضرورت ہے ۔اس وضاحت کی ضرورت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی وجہ سے پیش آئی جس میں انھوں نے انتہائی رعونت کے ساتھ کہاتھا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے کیوں کہ اسے ہر سال ’’بڑی رقم‘‘ دی جاتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکا ہمیں اپنا ’’دوست‘‘ یا ’’اتحادی‘‘ نہیں سمجھتا۔ بلکہ وہ ہمیں صرف ’’کرائے کا فوجی‘‘ سمجھتا ہے۔ ’’رقم‘‘ کی ’’یاددہانی‘‘ دوست یا اتحادی کو نہیں کرائی جاتی بلکہ کرائے پر کام کرنے والوں کو کرائی جاتی ہے۔ دوست اور اتحادی کیا ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں امریکا ور اسرائیل کے تعلقات کو دیکھنا چاہیے۔ امریکا اور بھارت کے مراسم پر نظر ڈالنی چاہیے۔ ساری دنیا اسرائیل کے خلاف ہے مگر امریکا اسرائیل کے ساتھ ہے۔ بھارت نے اپنی تاریخ کا بیش تر وقت سوویت کیمپ میں بسر کیا ہے مگر امریکا سوویت یونین اور روس کے ساتھ بھارت کے قریبی تعلقات کو صرف بھارت سے دوستی کی خاطر نظر انداز کرنے کو تیار ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کا حکمران طبقہ گزشتہ 50 سال سے امریکا کا بغل بچہ بنا ہوا ہے لیکن امریکا اپنے طرزِ فکر اور طرزِ عمل سے بتا رہا ہے کہ اس کے نزدیک پاکستان کے حکمران پچاس سال پہلے بھی کرائے کے فوجی تھے اور آج بھی کرائے کے فوجی ہیں۔یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ انسان اپنی عزت خود کراتا ہے، انسان بتاتا ہے کہ اس کا ایک بلند تصور حیات ہے، اس کے کچھ اصول ہیں، اس کی کوئی اخلاقیات ہے تو ’’دوسرے‘‘ بھی دیر سے سہی مان لیتے ہیں کہ اس شخص کی بھی ایک عزت ہے اس کی بھی ایک تکریم ہے لیکن اگر انسان بتائے کہ وہ صرف ’’ڈالر پرست‘‘ ہے تو پھر ’’دوسرے‘‘ بھی اسے ڈالر، پونڈ اور درہم و دینار سے ہی تولنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی امریکی حکمراں سمجھتے ہیں کہ ہم نے امریکا کے لیے جو جنگ لڑی ہے وہ صرف امریکی ڈالر اور امریکا کے خوف کے تحت لڑی ہے ،یہی وہ تاثر ہے جس کی بنیاد پر امریکا کے نائب صدر مائک پنس نے اپنے حالیہ خفیہ دورہ افغانستان کے موقع پر پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہاتھا کہ اگر پاکستان امریکا کی بات نہیں مانے گا تو بڑا نقصان اٹھائے گا اور اس سلسلے میں پاکستان کو تیار رہنا چاہیے۔ امریکا کے نائب صدر نے پاکستان کو مزید دھمکاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کے دن گنے جاچکے اور ہم نے امریکی فوجیوں کو کہیں بھی کارروائی کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ظاہرہوتاہے کہ امریکا ایک بار پھر پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ اگر تم ہماری جنگ کو گود نہیں لڑوگے تو تمہیں امریکا کا دشمن سمجھا جائے گا۔ امریکی نائب صدر کا یہ بیان بھی اسی تاثر کی عکاسی کرتاہے کہ امریکا ہمیں کرائے کے فوجی سے زیادہ اہمیت دینے کوتیار نہیں ہے۔ امریکی رہنمائوں کے ذہن میںبیٹھا ہوا یہ تاثر جب تک دور نہیں ہوجاتا امریکی رہنما ہمیں اپنا حقیقی اتحادی تسلیم نہیں کریں گے اور ہمیں وہ مقام دینے پر کبھی تیار نہیں ہوں گے ان قربانیوں کی وجہ سے ہم جس کے مستحق ہیں ۔

اس تناظر میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور کا بیان قطعی بروقت ہے اور ان بیانات کے بعد اب امریکی رہنمائوں اور خاص طورپر فوجی قیادت کو یہ احساس ہوجانا چاہئے کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کی مدد اور اعانت حاصل کرنے کے لیے اب دھمکیوں سے کام نہیں چلے گا اور امریکا اگر واقعی خطے میں امن کے قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتاہے تو اسے پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔امریکی رہنمائوں کو اب دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قیام امن کے لیے پاکستان کی معاونت اور مدد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ برابری کاسلوک کرنا ہوگا اور بھارت اور دیگر ممالک کی سرپرستی کرکے پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرنے کے بجائے پاکستان کی قربانیوںکا واضح طورپر اعتراف کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں دوستی کاہاتھ بڑھا ناہوگا۔

امید کی جاتی ہے کہ ہمارے سیاستداںخاص طور پرشریف برادران بھی اس صورت حال کاادراک کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے خلاف عدالتی فیصلوں میں خفیہ ہاتھ تلاش کرنے اور اپنے بیانات کے ذریعے ڈھکے چھپے الفاظ میں فوج کونشانہ بنانے کی کوششیں ترک کرکے ملک کے وسیع تر مفاد میں پوری دنیا پر یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ تمامتر اندرونی اختلافات کے باوجود پاکستان کی بقا اوروقار کے لیے تمام سیاستدان، عوام اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔جب تک ایسا نہیں کیاجاتاپوری دنیا خاص طورپر امریکی حکمرانوں کے ذہنوں میں بیٹھا ہوایہ تاثر دور کرنا شاید ممکن نہ ہو کہ پاکستانی کرائے کے فوجی ہیں اور ڈالر کے عوض ان سے ایسے کام بھی کرائے جاسکتے ہیں جو خود ان کے لیے بھی زہر ہلاہل سے کم نہیں ہوتے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں