میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شام کے مظلوم عوام اور اوآئی سی

شام کے مظلوم عوام اور اوآئی سی

منتظم
جمعه, ۹ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

بین الاقوامی میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق پوری دنیا کے امن پسند عوام کے احتجاج کے باوجود شام کے علاقے غوطہ میں ہولناک بمباری کاسلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے معصوم بچے ، خواتین اورمعمر افراد کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہاہے، اطلاعات سے ظاہر ہوتاہے کہ شام کی صورت حال دن بدن بگڑتی جارہی ہے، تمام باطل قومیں اور قوتیں ملک شام پر ٹوٹ پڑی ہیں، یہود بھی’ مجوس بھی کمیونسٹ بھی’ نصرانی بھی ‘ مشرک بھی اور منافق بھی حلب سے لے کر ”غوطہ تک شام کے شہروں کو خوفناک بمباری کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نفرت و حقارت کے استعارے اور نفاق کے آخری ستون بشار الاسد کو مضبوط کرنے کے لیے طاغوت پورا زور لگا رہا ہے۔ روس سرزمین الاسد کو مضبوط کرنے کے لیے طاغوت پورا زور لگا رہا ہے ۔ روس نے سرزمین شام کو تختہ مشق بنانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے اپنے تیار کردہ 200 نئے اقسام کے تباہ کن ہتھیاروں کو شام کی خانہ جنگی میں آزمائش کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مطابق شام میں گزشتہ سال دسمبر تک ہلاک شدگان کی تعداد4 لاکھ سے کسی طرح کم نہیں 2011کا وہ سال جب شام میں بشار الاسد کے حامیوں اور مخالفین میں خوفناک جنگ کی ابتداہوئی ، شام میں جاری خونی جنگ ساتویں سال میں داخل ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اپریل2014 تک کم و بیش9ہزار بچے اس خونی جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں,بشار الاسد اور اتحادی افواج کی بمباری سے اب تک سیکڑوں بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں، جو بچ گئے ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس پوری صورت حال سے نہ صرف امت مسلمہ واقف ہے بلکہ پوری دنیا میں اس پر احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ اور او آئی سی اس بربریت پر تاحال ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے میں ناکام رہے ہیں جس سے وہاں کے لوگوں کی داد رسی ہوسکے۔یہ واقعات جس تسلسل سے پیش آرہے ہیں اس کے ساتھ ہی بی بی سی کے مطابق جنگ زدہ علاقے میں بے بس خواتین کی عزت سے کھیلنے کی شکایات سامنے آئی ہیں تاہم یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان شرمناک واقعات میں کوئی اور نہیں بلکہ وہ لوگ ملوث ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے ہی تعینات کر رکھا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ اس مسئلے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے۔اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی افواج پر اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں جن سے وہ ہمیشہ سے ہی آنکھیں چراتا رہا ہے۔ سوڈان، نمیبیا، اور افریقی ریاست نائجیریا سمیت دیگر غربت اور جنگ زدہ ممالک میں اقوام متحدہ کی افواج ایسے کاموں میں ملوث پائی گئی ہیں۔ شام میں ان واقعات کا ہونا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں وہ اپنے من پسند مقاصد کے حصول کے لیے ایسے گھناؤنے کام پر پردہ ڈالنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس صورت حال سے ایک دفعہ پھر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اقوام متحدہ موجودہ دور میں دنیا میں کشت وخون کاسلسلہ بند کرانے والا موثر ادارہ اب صرف ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کررہا ہے، جب کہ اس کی تمام تر ڈوریں اسرائیل اورامریکہ کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان کا جیسا دل چاہتا ہے، یہ ویسے ہی اپنے مقاصد کیلیے اقوام متحدہ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال اسرائیل کا بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کا منصوبہ ہے جسے اقوام متحدہ نے بظاہر تو مسترد کردیا لیکن امریکی ایما پر اسے کنٹرول نہ کرسکا۔ اسی طرح کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم بھی اقوام متحدہ کو نظرنہیں آرہے۔ دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی تمامتر طاقت صرف مسلم ممالک کی حد تک رہ گئی ہے جب کہ بھارت بھی امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اقوام متحدہ کو اب آنکھیں دکھانے لگا ہے۔اس صورتحال میں اقوام متحدہ سے کسی خیر کی توقع کرنا فضول ہی ہے۔

دمشق میں جس طرح بچوں ، خواتین اور معمر افراد کو خون میں نہلایا اور خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے،اس صورتحال میں کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہاں امن ہوجائے گا اور جو لوگ اس ظلم و بربریت کا نشانہ بنے ہیں، اور جو سفاکی کانشانہ بن رہے ہیں، وہ ان کا بدلہ نہیں لیں گے؟ اگر ایسی کوئی سوچ اقوام متحدہ، او آئی سی یا پھر امریکہ نے اپنے دل ودماغ میں بٹھا رکھی ہے تو ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں کیونکہ جن گھروں سے جنازے اٹھ رہے ہیں وہ لازمی بات ہے اب ان قوتوں کا ساتھ دیں گے جو اقوام متحدہ، او آئی سی اور امریکہ کی دشمن ہیں؛ اور اگر یہ قوتیں آپس میں مل گئیں تو پھر وہاں امن کی مشعل کا جلنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔

دنیا کے تمام مسلم ممالک خاص طورپر اوآئی سی کے کرتادھرتائوں کو اس المیئے پر توجہ دینی چاہئے اور شام کے معصوم عوام کو اس طرح ہلاکتوں سے بچانے کے ساتھ ہی مستقبل میں کسی اور مسلم ملک کے عوام کے ساتھ ہونے والی اس طرح کی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے قابل عمل حکمت عملی اپنانی چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں