مردم شماری کے نتائج کومتنازع بنانے سے گریز کیاجائے!
شیئر کریں
سندھ حکومت نے مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو مستردکردیا۔ پیپلزپارٹی کے رہنمانثار کھوڑو نے الزام لگایا ہے کہ مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم کرکے ظاہر کیا گیا ہے جوکہ وفاق کی سازش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مردم شماری سے متعلق نتائج کے مسئلے پرکْل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیااور عیدالاضحی کے بعد اس کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع کرنے کااعلان کیاہے جبکہ وفاق نے یہ سارے اعتراضات مسترد کردیے ہیں اور کہا ہے کہ ملک میں شفاف مردم شماری کا انعقاد کیا گیا ہے‘ تمام صوبوں میں مانیٹرنگ کمیٹیاں بنادی گئی تھیں جنہیں بریفنگ دی جاتی رہی پھر مردم شماری سے متعلق شکایات کو نمٹانے کے لیے اضافی وقت بھی دیا گیا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ شعبہ شماریات نے ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا مردم شماری کرانے کے لیے ہرممکن تدابیر اختیار کیں۔ اس کام میں پہلی دفعہ فوج کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ مردم شماری کا کام کرنے والی ٹیموں کے ہمراہ دو فوجی جوان بھی ہوتے تھے۔ یہ کام سب کے سامنے ہوتا رہا۔ اب اس میں ’’راز اور سازش‘‘ شامل کرنا درست نہیںاور مردم شماری کے نتائج کومتنازع بنانے کے بجائے اس حوالے سے اعتراضات پر ٹھوس ثبوت پیش کرنے پر توجہ دیں تاکہ اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو اس کی اصلاح کی جاسکے۔
انیس برس بعد ہونے والی اس مردم شماری پر کم و بیش ہرصوبے نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے یہاں تک کہ پنجاب میں خود حکومتی پارٹی کے ارکان نے قومی اسمبلی میں نشستیں کم ہوجانے کے خدشات کااظہار کیا ہے ،سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے مردم شماری کے نتائج پر عدم اطمینان سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ ان نتائج نے مختلف شہروں میں آبادیوں کے تناسب کے حوالے سے پائے جانے والے تمام اندازے غلط ثابت کردیے ہیں۔ مثال کے طورپر کراچی جس کی آبادی کا تخمینہ دوکروڑ سے زیادہ کالگایاجاتارہا ہے سکڑ کر پونے 2کروڑ سے بھی کم ہوگئی ہے ، اب تک جو بھی ترقیاتی منصوبے بنائے گئے آبادی کے اسی تصور کی بنیاد پر بنائے جاتے رہے ہیں۔
ملکوں کی ترقی اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی منصوبہ بندی میں مردم شماری کاکردار کلیدی ہوتا ہے آج کے دور میں کوئی جدید ریاست یہ جانے بغیر قومی ترقی اور فلاح کا کوئی منصوبہ بناہی نہیں سکتی کہ اس کے شہریوں کی کل تعداد کیا ہے۔ مردم شماری کا یہ عمل اکبر اعظم کے دور میں ٹوڈرمل جیسے نابغوں کی بدولت اس خطے میں متعارف ہوا تھا۔ برطانوی سامراج نے اپنا اجارہ قائم کرنے کے بعد اسے جدید تر بنایا۔کسی بھی شہر کے بارے میں انگریز ڈپٹی کمشنروں کے لکھے گزیٹرزاٹھالیجیے۔ آپ کو بہت وضاحت کے ساتھ بتادیا جائے گا کہ اس شہر میں کل کتنے لوگ رہتے تھے۔ حتمی گنتی کے علاوہ آپ کو اس شہر میں مختلف پیشوں اور آمدنی کے اعتبار سے تقسیم کے حوالے سے بھی ٹھوس اعدادوشمار مل جاتے ہیں۔ بہت محنت اور خلوص سے جمع کیے ان اعدادوشمار کی صداقت پر کبھی کسی شخص نے سوالات نہیں اٹھائے تھے۔
ہمارے ملک میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔ 2008میں اس عمل کو دُہرانا ضروری تھا۔ لیکن عوام کے ’’حقیقی نمائندوں‘‘ پر مشتمل ہماری حکومت اس فرض سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈتی رہی۔ بالآخر سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑی اور عدالت نے از خود اختیارات استعمال کرتے ہوئے ریاست کو اپنا ایک بنیادی فریضہ نبھانے پر مجبور کردیا۔سپریم کورٹ کے اس حکم کی تعمیل میںکرائی جانے والی اس مردم شماری کا جب آغاز ہوا تو ہمارے ہمہ وقت مستعد رہنے کے دعوے دار 24/7چینلوں نے اس کے طریقہ کار پر مناسب توجہ ہی نہیں دی۔پاناما کے بہانے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ ’’ڈالر گرل‘‘ کے جسم پر بنے Tatooدکھاتے رہے۔
مردم شماری کے عمل کے بارے میں اصل خدشات بلوچستان کے بلوچوں اور سندھ میں اْردو بولنے والوں کو لاحق تھے۔ بلوچ ان دنوں بہت ہی محب وطن ہوکر خاموش رہنا سیکھ گئے ہیں۔اْردو بولنے والوں نے کراچی کی آبادی توقع سے کم ہونے پر بجاطورپرتشویش کااظہار کیاہے، لیکن یہ اظہار تشویش صرف اردو بولنے والوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سندھ کے رہنمائوں نے بھی یہ نتائج غلط قرار دیتے ہوئے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کردیاہے،حقائق خواہ کچھ بھی رہے ہوں،سندھ ہی نہیں بقیہ پاکستان کی بے پناہ اکثریت بھی یہ طے کرچکی ہے کہ شہر کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے کم ہوہی نہیں سکتی۔ حالیہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق اس شہر کی آبادی سے مبینہ طورپر ’’کم از کم‘‘ ڈیڑھ کروڑ افراد ’’غائب‘‘ کردیے گئے ہیں۔ کیسے؟! اس سوال کا جواب کوئی دینے کو تیار ہی نہیں ہورہا۔
ذرا منطقی انداز میں بات کریں تو آج کے ڈیجیٹل دور میں گھر گھر جاکر Dataاکٹھا کرنا مردم شماری کے لیے حتمی طریقہ تسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں قومی شناختی کارڈ متعارف ہوچکا ہے۔ نادرا کے ذریعے انگوٹھے کے نشان سمیت سی این آئی سی ملتے ہیں۔
ابتدامیں ہماری آبادی کی بے پناہ اکثریت نے اس عمل میں دلچسپی نہیں لی تھی۔ووٹوں کے اندراج،موبائل فونوں کے حصول اور پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنسوں کی ضرورت نے انہیں یہ کارڈ حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی وجہ سے غریب اور ان پڑھ عورتیں بھی یہ کمپیوٹرائزڈ کارڈز حاصل کرنے پر مجبور ہوئیں۔سی این آئی سی کے حصول کے لیے فارم(ب) کو پْر کرنا بھی ضروری ہے۔ نادرا کے ذریعے سی این آئی سی کے اجراء کے نظام میں یقینا بہت خامیاں ہوں گی۔ طالبان کے امیر ملامنصور اس کی بدولت ’’ولی محمد‘‘ بن کر پاکستانی پاسپورٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ قصہ مگر مستثنیات میں شمار ہونا چاہیے۔بنیادی حقیقت یہ ہے کہ نادرا کی بدولت ہمارے پاس وہ بنیادی ڈیٹابالکل موجود ہے جو ہمیں یہ بات طے کرنے میں آسانی فراہم کرے کہ پاکستان کے کتنے شہریوں نے اپنے شناختی کارڈز پر کراچی میں واقع کسی مکان کو اپنا ’’مستقل پتہ‘‘ بتایا۔ ایسے لوگوں نے فارم (ب) میں کتنے لوگوں کو اپنے کنبوں کا رکن قرار دیا۔
حالیہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے بارے میں احتجاجی شور بلند کرنے سے پہلے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں، مصطفی کمال اور فاروق ستار کو کم از کم نادرا کے ذریعے یہ ڈیٹااکٹھا کرنا چاہیے تھا۔ یہ ڈیٹا سیاسی وابستگیوں سے بالاتر مردم شماری کے علم سے باخبر ڈیموگرافرزکے روبرو رکھ کر ہی ہم ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ طے کرسکتے ہیں کہ حالیہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں یا نہیں۔ ایسی تحقیق کے بغیر ان نتائج کے بارے میں مچائی دہائی محض ووٹ بینک کی سیاست ہوگی جس کا انجام بہت خوفناک اور بھیانک بھی ہوسکتا ہے۔
حکومت کوچاہئے کہ ملک بھر میں19سا ل کے طویل انتظار کے بعد ہونے والی مردم شماری کے نتائج کو متنازع بننے سے بچانے کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ایسی قابل عمل حکمت عملی اختیار کرے جو تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کے لیے قابل قبول ہو،اس کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں کو بھی مردم شماری کے نتائج پر اعتراض کے ساتھ اپنے ان اعتراضات کے حوالے سے ٹھوس ثبوت بھی پیش کریں محض نتائج کو مسترد کرنے کے اعلان اور انھیں غلط قرارد ینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
٭٭…٭٭