فتح مکہ …… اسلام اور اہل اسلام کی فتح مبین کا دن
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
سنہ6 ہجری میں جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان حدیبیہ میں صلح ہوئی تھی اور عہد نامہ لکھا گیا تھا، اُس وقت دوسرے قبیلوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس کسی کے عہد اور عقد میں شامل ہونا چاہیں شامل ہوجائیں۔ چنانچہ قبیلہ بنو خزاعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں اور قبیلہ بنو بکر قریش کے عہد میں شامل ہوگئے۔ اِن دونوں قبیلوں میں زمانہئ جاہلیت سے اَن بن چلی آرہی تھی اور بعثت نبوی ؐتک برابر چلتی رہی، جو بالآخر طلوعِ اسلام کے بعد اسلامی معاملات میں مشغول ہونے کی وجہ سے رُک گئی۔شروع میں معاہدہئ صلح ہوجانے کے بعد فریقین ایک دوسرے سے مامون اور بے خطر ہوگئے تھے، لیکن بعد میں بنو بکر نے اپنی دُشمنی کی آگ کو کم کرنے کے لئے اِس موقع کو غنیمت سمجھا اور اچانک بنو خزاعہ پر شب خون مار دیا،اور گھروں میں گھس گھس کر اُن کو قتل کردیا اور اُن کا مال و اسباب لوٹ لیا۔ صبح کو قریش اپنے کئے پر سخت نادم ہوئے اور سمجھ گئے کہ ہم نے عہد شکنی کردی ہے۔
عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینہ منورہ بارگاہِ نبوی ؐمیں پہنچا اور ایک صدا لگائی کہ ”اے پروردگار! میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے اور اُن کے خاندان کے درمیان ہونے والا قدیم عہد یاد دلانے آیا ہوں۔ اے پیغمبر خدا! ہماری مدد کرو اور اللہ کے بندوں کو بلاؤ سب حاضر ہوں گے۔“ آنحضرت صلی اللہ علیہ نے جب یہ واقعات سنے تو آپؐ کو سخت رنج ہوا۔ اِس لئے آپ ؐنے قریش کے سامنے تین شرطیں رکھیں: ”ایک مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔ دوسرے قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہوجائیں۔ تیسرے منادی کرادی جائے کہ حدیبیہ کی صلح ٹوٹ گئی ہے۔“
قریش نے پہلی دو شرطیں توردّ کردیں البتہ تیسری شرط تسلیم کرلی اور اُس کے لئے ابو سفیان کو مدینہ منورہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سفیر بناکر بھیج دیا کہ وہ صلح حدیبیہ کی تجدید کرا لائیں۔ ابو سفیان خدمت نبوی ؐ میں حاضر ہوئے اور تجدید صلح کی بات کی تو بارگاہِ رسالتؐ سے کوئی جواب نہ آیا، ابو سفیان نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ،حضرت فاطمہؓ اور پانچ سالہ حضرت حسن مجتبیٰؓ کو بیچ میں ڈالنا چاہا،لیکن کسی نے ساتھ نہ دیا، بالآخر ابو سفیان نے حضرت علی ؓکے ایماء سے مسجد نبویؐ میں جاکر یہ اعلان کیا کہ میں نے ”معاہدہئ حدیبیہ“ کی تجدید کرالی ہے۔
مکہ مکرمہ جاکر ابو سفیان نے جب قریش کو یہ اطلاع دی تو اُنہوں نے کہا کہ یہ نہ تو صلح ہے اور نہ ہی جنگ،لہٰذا اب ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے اب جنگ کی تیاری کی جائے۔
اِدھر ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ جانے کی تیار یاں مکمل کرلیں اور اتحادی قبائل کو مکہ کی طرف اپنے ہم راہ جانے کے لئے تیار ہوکر آنے کا پیغام بھیج دیا، اِس موقع پر اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ قریش مکہ کو ہمارے آنے کی کانوں کان خبر نہ ہونے پائے، لیکن سوئے اتفاق کہ اُدھر دوسری طرف حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ(جو ایک معزز بدری صحابی تھے)اُنہوں نے قریش کو خفیہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ کی طرف تیاریاں کرنے کے بارے میں خط لکھ کر روانہ کردیا، حسن اتفاق کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی طرح اِ س خط کی اطلاع ہوگئی، آپؐ نے فوراً چند صحابہ کو روانہ فرمایاکہ وہ قاصد خط چھین کر لے آئیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، یہ حضرات قاصد سے خط چھین کر لے آئے اور لاکربارگاہِ رسالت میں پیش کردیا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم خط کھول کرجب دیکھا تو وہ اپنے ہی ساتھی حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کی طرف سے قریش مکہ کو لکھا گیا خط تھا، یہ دیکھ کر تمام صحابہؓ کو حضرت حاطبؓ کے اِس افشائے راز پر غیر معمولی حیرت ہوئی،حضرت عمرؓ تو آپے سے باہر ہوگئے اور عرض کی اگر اجازت ہو تو میں اِس منافق کی گردن اُڑادوں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حاطب بدری ہے اور تمہیں کیا معلوم؟ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے کہہ دیا ہو جو چاہو کرو میں نے تمہاری بخشش کردی۔
اِس کے بعد آپؐ نے حضرت حاطبؓ کو بلایا توحضرت حاطبؓ نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں،بلکہ پہلے میری مجبوری سماعت فرما لیں! در اصل بات یہ ہے کہ قریش سے میری کوئی رقابت نہیں فقط حلیفانہ تعلقات ہیں، میرے اہل و عیال آج کل مکہ میں ہیں، جن کا دوسرے مہاجرین کی طرح وہاں کوئی حامی و مدد گار نہیں، میں نے چاہا کہ قریش کے ساتھ میں یہ احسان کردوں تاکہ وہ میرے اہل و عیال کو وہاں کسی قسم کی کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہنچاسکیں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطبؓ کے اِس معقول عذر کو قبول فرمایا اور اُنہیں معاف فرمادیا۔ القصہ مؤرخہ 10 رمضان سنہ 8 ہجری کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی 10 ہزار آراستہ فوجیں لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ سے کم و بیش ایک منزل پہلے مقام ”مر الظہران“ پر پڑاؤ ڈالا اور فوجوں کو دور دور تک پھیلادیا اور اُنہیں حکم دیا کہ تمام افواج اپنی اپنی جگہوں پر آگ روشن کردیں، جب آگ رُوشن ہوئی تو تمام صحراء وادی ایمن بن گیا۔
چوں کہ فوج کی آمد کی بھنک قریش کے کانوں میں پڑ چکی تھی،اِس لئے تحقیق کے لئے اُنہوں نے حکیم بن حزام، ابو سفیان اور بدیل بن ورقاء کو بھیجا۔ خیمہئ نبویؐ کی دربانی پر جو دستہ متعین تھا اُس نے ابو سفیان کو دیکھ لیااور گرفتار کرکے بارگاہِ رسالت میں پیش کردیا، ابو سفیان جب گرفتار ہوا تو اُنہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور وہ سچے دل سے مسلمان ہوگئے۔اِس کے بعد حضرت عباسؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ابو سفیانؓ سردارانِ مکہ میں سے ہیں، فخر کو پسند کرتے ہیں، لہٰذا اِن کے لئے کوئی قابل فخر شے ہونی چاہیے! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اعلان کرادو کہ جو شخص ابو سفیانؓ کے گھر میں داخل ہوگا وہ مامون ہے۔ ابو سفیان ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! میرے گھر میں سب کہاں سماسکتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہوجائے وہ بھی مامون ہے، ابو سفیانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مسجد حرام بھی ناکافی ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ بھی مامون ہے۔ ابوسفیانؓ نے کہا ہاں! اِس میں بہت وسعت اور گنجائش ہے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ مجاہدین اسلام جب مکہ کی طرف بڑھنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابو سفیان ؓکو پہاڑی کی چوٹی پر لے جاؤ تاکہ وہ مجاہدین اسلام کے جاہ و جلال کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کر سکیں، چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا اور ابوسفیانؓ کو پہاڑی کی چوٹ پر لا کھڑا کردیا۔ جب دریائے اسلام کی طلاطم خیز موجوں میں طغیانی آئی اور مجاہدین اسلام کی فوجیں جوش مارتی ہوئی آگے کی طرف بڑھنے لگیں تو ابو سفیانؓ یہ دیکھ کر بے اختیار پکار اُٹھے کہ: ”آج گھمسان کا دن ہے آج کعبہ حلال کردیا جائے گا۔“ اور رخصت لے کر آپؓ واپس مکہ آگئے۔ مکہ پہنچ کر آپؓ نے بآوازِ بلند یہ منادی کرائی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے ساتھ آرہے ہیں، میری رائے میں کسی میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اُن سے مقاومت کرسکے، لہٰذا اسلام لے آؤ! سلامت رہوگے۔“
تاہم قریش کے ایک گروہ نے پھر بھی مقابلہ کا قصد کیا اور حضرت خالدؓ کی فوج پر تیر برسائے جس سے تین صحابہ ؓشہید ہوئے، حضرت خالدؓ نے مجبور ہوکر حملہ کیا جس سے اُن کی تیرہ لاشیں گریں اور وہ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے، آنحضرت صلی اللہ علیہ نے تلواروں کو جب اِس طرح چمکتے دیکھا تو حضرت خالدؓ سے باز پرس کی، لیکن جب حضرت خالدؓ نے بتایا کہ اقدام قریش کی طرف سے تھا تو آپؐ نے فرمایا کہ قضائے الٰہی یہی تھی۔
اِس کے بعد آپؐ ”کداء“ کی جانب سے مکہ میں داخل ہوئے اور حرم محترم میں حاضری دی، اُس وقت خانہ کعبہ کے گرد 360 بت رکھے ہوئے تھے،آپؐ ایک ایک بت کو لکڑی کی نوک سے ٹھوکے جاتے اور فرماتے جاتے کہ: ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی۔“ اور آپؐ نے تمام بت حرم سے نکال دینے کا حکم فرمایا۔ اِس کے بعد آپؐ نے طواف کیا اور عثمان بن طلحہ کو بلاکر کعبہ شریف کی چابی منگوائی اور بیت اللہ کو کھلوایا، دیکھا کہ اُس میں تصویریں لگی ہوئی ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر جاکرتمام تصویریں مٹادیں، پھر کعبہ شریف کو زم زم سے دھویاگیا، اُس وقت آپؐ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور آپؐ نے نماز ادا فرمائی۔نماز ادا کرنے کے بعد باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد حرام لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے تو آپ نے باب کعبہ پر کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا، خطبہ دینے کے بعد آپؐ مسجد میں بیٹھ گئے اور عثمان بن طلحہ کو بلاکر بیت اللہ کی چابی اُن کے حوالے کردی۔ظہر کی نماز کا وقت جب آیا تو آپؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ بام کعبہ پر چڑھ کر اذان دیں، جب حضرت بلالؓ بام کعبہ پر چڑھ کر اذان دے رہے تھے تو اُس وقت قریش مکہ دین حق کی سربلندی اور اُس کی فتح مبین کا یہ عجیب و غریب منظر پہاڑوں کی چوٹیوں سے دیکھ رہے تھے۔
***