میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر اعلیٰ سندھ کانیاخواب‘ نیاہیلی کاپٹر خریدنے کے لیے قوانین توڑنے کی تیاری کرلی گئی

وزیر اعلیٰ سندھ کانیاخواب‘ نیاہیلی کاپٹر خریدنے کے لیے قوانین توڑنے کی تیاری کرلی گئی

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭سابق وزیر اعلی کا یہ خواب پورانہ ہوسکا،نئے شاہ پرانورمجیدکا دباﺅ،بیوروکریسی سے سردجنگ جاری٭ اویس مظفر ٹپی اس ضمن میں ڈھائی ارب ڈکارنے کی حسرت لے کر چلے گئے٭اب انورمجید انکی جگہ وزیر اعلیٰ کو نئے ہیلی کاپٹر کا خواب پورا کرنے پر زور دے رہے ہیں٭ٹیکنیکل کمیٹی نے سفارش کی ہے اوپن مارکیٹ سے ہیلی کاپٹر خریداجائے تاکہ قوانین پر عمل ہوسکے
الیاس احمد
خلیل جبران نے کیا شاہکار بات کی ہے کہ ”حکمران اور خوبصورت عورت کا یہ المیہ ہے کہ انہیں مخلص دوست نہیں ملتے۔“ اور یہ حقیقت روز اول سے عیاں ہے کہ کسی بھی حکمران کو وہ لوگ یا وہ بات پسند نہیں ہوتی جو حقیقت پسندی پر مبنی ہو بلکہ ان کو وہ لوگ اور وہ باتیں پسند ہوتی ہیں جو خوشامد پر مبنی ہوں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو اویس مظفر ٹپی کے ٹولے نے مشورہ دیا کہ وہ نیا ہیلی کاپٹر خریدےں۔ قائم علی شاہ خوش ہوگئے اور پھر اویس مظفر ٹپی نے مختلف کمپنیوں سے بات چیت شروع کی ۔ تب انہوں نے ایک کمپنی سے بات فائنل کی، ڈیڑھ ارب روپے کا چھوٹا ہیلی کاپٹر 4 ارب روپے میں خریدنے کا خفیہ معاہدہ کیا۔ ڈیڑھ ارب روپے کمپنی وصول کرتی اور ڈھائی ارب روپے اویس مظفر ٹپی کی جیب میں چلے جاتے۔ معاملات 100 فیصد طے ہوگئے ،جب اس ضمن میں اجلاس ہوا تو اس وقت کے سیکریٹری امپلی منٹیشن شکیل احمد منگنیجو نے مزاحمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہیلی کاپٹر پاکستان میں صرف ایئرفورس کے پاس بنتے ہیں لیکن ایئرفورس ان کو فروخت نہیں کرتا ،اس لئے بیرون ممالک سے خریدنا پڑیں گے ۔تو بہتر یہی ہوگا کہ اس کے لئے عالمی اخبارات میں اشتہار دیا جائے اور جو کمپنیاں دلچسپی لیں ان سے بات کرکے کم قیمت کی پیشکش کرنے والی کمپنی سے ہیلی کاپٹر خریدا جائے ۔ہیلی کاپٹر خریدنے کے لئے جو پریکیورمنٹ کمیٹی بنائی گئی، اس میں کئی افسران شامل تھے لیکن اس سلسلے میں منعقدہ اہم اجلاس میں اویس مظفر ٹپی بھی شریک ہوئے۔وجہ یہ تھی کہ وہ افسران پر اپنا رعب جما کر فیصلہ کروانا چاہتے تھے کہ کمیٹی منظوری دے اور بغیر کسی اشتہار کے ہیلی کاپٹر خریدا جائے مگر جب سیکریٹری امپلی منٹیشن شکیل احمد منگنیجو نے مزاحمت کی،تو اویس مظفر ٹپی کے پسینے چھوٹ گئے۔ انہوں نے کمیٹی کے دیگر ارکان پر بھی رعب جمانے کی کوشش کی تاہم مراد علی شاہ کے بہنوئی اور سیکریٹری (جنرل ایڈمنسٹریشن) آصف حیدر شاہ نے بھی شکیل احمد منگنیجو کی بات کی تائید کی، دیگر ارکان نے بھی اشارتاً شکیل منگنیجو اور آصف حیدر شاہ کی بات کو درست قرار دیا۔ اویس مظفر ٹپی کو شدیدغصہ آیا، وہ لال پیلے ہوگئے اور غصے سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس وقت افسران نے طے کیا کہ فوری طور پر منٹس تیار کرکے وزیر اعلیٰ کو منظوری کے لئے بھیجے جائیں،اجلاس کے منٹس میں اخبارات میں اشتہار دینے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا اور ساتھ ساتھ سندھ پبلک پریکیورمنٹ ریگیولیٹری اتھارٹی اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے قوانین کا حوالہ دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اویس مظفر ٹپی کی مخالفت کے باوجود منٹس پر دستخط کردیے۔ یوں اویس مظفر ٹپی کی جیب میں ڈھائی ارب روپے آتے آتے رہ گئے۔ انہوں نے جاکر اس وقت کے صدر آصف زرداری کو الٹی سیدھی کہانیاں بتائیں تاہم اچھی شہرت کے حامل افسران کے اسٹینڈ لینے پر ان کا کھیل بگڑ گیا۔ بعد ازاںاپنی پُرخاش نکالنے کے لیے اویس مظفر ٹپی نے شکیل احمد منگنیجو سمیت چار افسران کی خدمات واپس وفاقی حکومت کے حوالے کیں۔ لیکن بیورو کریسی کے دباﺅ اور ممکنہ عدالتی فیصلے کے پیش نظرحکومت سندھ نے چار روز بعد ان چاروں افسران کو واپس سندھ میں تعینات کرنے کی وفاقی حکومت سے درخواست کردی۔
قائم علی شاہ چلے گئے، مراد علی شاہ آگئے۔ اس بار اویس مظفر ٹپی کی جگہ انور مجیدنے وزیر اعلیٰ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر کو بدل دےں کیونکہ یہ تو جام صادق دور میں لیا گیا تھا اور اب اس ہیلی کاپٹر کو استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ باوثوق ذرائع نے خبر دی ہے کہ وزیر اعلیٰ اس بات پر تیار ہوگئے ہیںاور اس بارے میں انور مجید نے ایک کمپنی سے خود بات کی۔ذرائع نے انکشاف کیا کہ سوا ارب روپے سے خریدے جانے والے جیٹ ائر کے لئے قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، ٹیکنیکل کمیٹی نے ”بمبارڈیر“ کمپنی سے براہ راست خریدنے کی سفارش کردی ہے۔ پرانے ایئر جیٹ کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنے کی تیاریاں کرلی گئی ہیں اوراس کے بدلے مہنگا ہیلی کاپٹر خریدنے کی کوشش تیز کردی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو ایک مرتبہ پھر ٹیکنیکل کمیٹی اور دیگر متعلقہ افسران نے مشورہ دیا ہے کہ وہ اوپن مارکیٹ سے ہیلی کاپٹر خریدیں تاکہ قوانین پر بھی عمل ہوسکے اور ہیلی کاپٹر بھی مناسب قیمت پر مل سکے لیکن چونکہ معاملہ انور مجید کا ہے اس لئے وزیر اعلیٰ سندھ نے افسران پر دباﺅ ڈالا ہے کہ من پسند کمپنی سے خریدنے کی منظوری دیں اور افسران دباﺅ میں ضرور ہیں لیکن وہ فی الحال وزیر اعلیٰ کے غیر قانونی احکامات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسری جانب انور مجید رات دن وزیر اعلیٰ پر دباﺅ ڈال رہے ہیں کہ فوری طور پر اس کمپنی سے یہ ہیلی کاپٹر خریدا جائے ۔اندرونی ذرائع کا تجزیہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ دوسروں پر تو چڑھ دوڑتے ہیں لیکن انور مجید کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔لہٰذا اب وزیر اعلیٰ ہاﺅس اور انور مجید کی بیورو کریسی کے ساتھ سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور انور مجید کامیاب ہوتے ہیں یا بیورو کریسی اصولی موقف کی بنا پر جیت جاتی ہے، اس کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں