سیاستدانوں نے 50کی دہائی سے آج تک غلطیاں کیں،خواجہ آصف
شیئر کریں
وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکمران اشرافیہ سے کوئی نہ کوئی گناہ اور جرم سرزد ہوا ہے، سیاستدانوں نے 50 کی دہائی سے لے کر آج تک غلطیاں کی ہیں، اقتدار کی جنگ بعد میں بھی لڑی جا سکتی ہے، ایک شخص ریاست کو بلیک میل کر رہا ہے،مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارا معاشرہ جمہوری نہیں۔ عوام کی خواہشات اور دکھ اگر شئیر نہیں کر سکتے تو حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سیاسی لوگ زبانی جمع خرچ کرتے ہیں تاکہ انہیں 4 ووٹ مل جائیں۔انہوں نے کہا کہ فوج نے ملک میں 4 مرتبہ مداخلت کی ہے، آج ایک شخص کا اقتدار آئینی طریقے سے ختم کیا گیا، وہ ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ مسائل کا مستقل حل نکالنا چاہیے، ہم اسے مانیں یا نہ مانیں، ہمارے پاس طاقت پوری ہے یا نہیں لیکن مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ اس وقت جس ملک کا نام پاکستان ہے اور ہم ایک قوم ہیں۔ ملک کی اشرافیہ نے غلطیاں کیں جن کو تسلیم کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سب کے ذمہ کوئی نہ کوئی گناہ ہے جو کہہ رہا ہوں وہ سنجیدہ ہے اور ہائوس کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہم نے فاش غلطیاں کیں لیکن اب اس کا حل ڈھونڈا جاسکتا تھا۔ زخم بہہ رہا ہے اور اس پر مرحم رکھنے، علاج کی ضرورت ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اقتدار کی جنگ بعد میں بھی لڑی جا سکتی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد ایک سے ڈیڑھ سال بعد مختلف رائے کو برداشت نہیں کیا گیا۔خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا ہے کہ چھوٹے صوبوں کے لوگ لیاقت باغ سے لاشیں اٹھا کر چلے گئے، مگر انہوں نے پاکستان کو نقصان نہیں پہنچایا۔خواجہ آصف نے کہا ہے کہ معاملات کو سیاسی طریقے سے حل نہ کیا جائے تو مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ کچھ ایشوز ایسے ہیں جن کا حل بہت ضروری ہے اور 2، 3 ایشوز تو ایسے ہیں جن پر ہم سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ 12 سال قبل سوات میں جو ہوا وہ سب کو یاد ہو گا اور امن کے لیے سوات کے عوام کا احتجاج کرنا اچھی بات ہے لیکن سوات میں 13 سال بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ رستے ہوئے زخموں کو نظر انداز کرنا نقصان دہ ہے۔ سوات میں لگی آگ مجھ سمیت سب کے دامن تک پہنچ سکتی ہے۔بلوچستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 50 کی دہائی سے ایک سلسلہ شروع ہوا اور پھر سمجھوتے ہوئے۔ میں نے بلوچستان کی حکومت پر نکتہ چینی کی جسارت بھی کی تھی اور ہم بلوچستان گئے تو کہا گیا آپ کو نکتہ چینی نہیں کرنی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ سوا 3 کروڑ پاکستانی کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہا ہے اور انہیں نہیں پتہ یہ زندگی کہاں لے جائے گی کیونکہ سب کچھ لٹ چکا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارا معاشرہ جمہوری نہیں۔ عوام کی خواہشات اور دکھ اگر شئیر نہیں کر سکتے تو حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں۔