پاناما پیپرز۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے ۔۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی (قسط نمبر10 )
شیئر کریں
آئس لینڈ کے وزیراعظم اورنکارا گوا کے صدر بھی آف شور کمپنی کے مالک نکلے
٭یکم مارچ 1986 میں جرگن موزاک اور پاناما کے ایک وکیل رامن فونسیکا نے اپنی فرمز کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کافیصلہ کیاجس کے بعد جرگن موزاک موزاک فونسیکا بن گئی٭ رامن فونسیکا کوئی گمنام شخص نہیں ،وہ نہ صرف پاناما کے معروف سیاستدان ہیں بلکہ انعام یافتہ ادیب بھی ہیں ، آجکل پاناما کے صدر جان کارلوس واریلا کے مشیر ہیں
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
نوریگا کے دور میں جرگن موزاک کی جانب سے اس وقت کے منشیات کے کم ا ز کم ایک بدنام زمانہ اور سفاک ڈیلر کیرو کوئنٹیرو کی مدد کی گئی ، کوئنٹیرو میکسکو کا ایک تاجر تھا ۔اس کی سفاکی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ اس نے منشیات کی اسمگلنگ اور تجارت کی تفتیش کرنے والے امریکی تفتیش کار’’انرک کی کی‘‘ کو قتل کرنے کے احکامات صادر کیے تھے،کوئنٹیرو کو بعد میں اپریل 1985 میں کوسٹاریکا سے عین اس وقت گرفتار کرلیا گیا تھاجبکہ وہ جرگن موزاک کی فرم کے ذریعے ایک کمپنی قائم کرنے کی تیاری کررہاتھاجس میں کوئنٹیرو کی دولت بلا روک ٹوک پھل پھول سکتی۔اس کے فوری بعد ایک اور کمپنی قائم کی گئی جو کوسٹاریکا میں ایک محل کی مالک تھی، یہ محل بعد میں کوسٹاریکا کی حکومت نے ضبط کرلیا اور اسے کوسٹاریکا کے نیشنل اولمپک کمیٹی کے سپرد کردیاگیا لیکن اس سب کے باوجود یہ محل اب بھی کوئنٹیرو کی شیل کمپنی کی ملکیت ہے اور جرگن موزاک اس کے نامزد ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہاہے۔اس محل پر جرگن موزاک کی ملکیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتا ہے کہ چند سال قبل جب کوسٹاریکا کی نیشنل اولمپک کمیٹی نے جرگن موزاک سے یہ محل ہمیشہ کیلیے ان کے حوالے کرنے کی درخواست کی تو جرگن موزاک نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔
یکم مارچ 1986 میں جرگن موزاک اور پاناما کے ایک وکیل رامن فونسیکا نے اپنی فرمز کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کافیصلہ کیاجس کے بعد جرگن موزاک موزاک فونسیکا بن گئی۔ جرگن موزاک کاپارٹنر بننے والے رامن فونسیکا کوئی نامعلوم اور گمنام شخص نہیں بلکہ رامن فونسیکا مورا نہ صرف یہ کہ پاناما کے معروف سیاستدان ہیں بلکہ انعام یافتہ ادیب بھی ہیں ، اور ان دنوں پاناما کے صدر جان کارلوس واریلا کے مشیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔وہ پاناما کی حکمران سیاسی جماعت پانامینستا کے ڈپٹی چیئر مین بھی ہیں۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ رامن فونسیکا اس چھوٹے سے ملک کی بڑی اہمیت کے حامل شخصیت ہیں۔
ایک وقت تھا جب پاناما کے اخبارات میں یہ قیاس آرائیاں شائع ہورہی تھیں کہ پاناما کے صدر واریلا فونسیکا کو پبلک سیکورٹی کاوزیر بنانا چاہتے ہیں لیکن امریکا کی مخالفت کی وجہ سے انھیں اپنا ارادہ تبدیل کرناپڑا۔اطلاعات کے مطابق امریکا نے پاناما کے صدر پر یہ واضح کردیاتھا کہ ایک ایسے شخص کو جس کی فرم پر منی لانڈرنگ کی پشت پناہی کاالزام ہے ،وزیر بنائے جانے پر امریکا خوش نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے امریکا کو تکلیف ہوگی۔امریکا کے اس ردعمل سے ظاہرہوتاہے کہ امریکا بھی موزاک فونسیکا کی سرگرمیوں سے اچھی طرح واقف تھا۔
رامن فونسیکا کاشمار ایسے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھیں تشہیر بہت پسند ہے او ر جوہمیشہ اخبارات کی زینت بنے رہنا چاہتے ہیں۔وہ مختلف اخبارات کیلیے مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں اور فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں۔فیس بک پر اس کے ہزاروںمداح ہیں۔
رامن فونسیکا کاشمار پاناما کی دولت مند ترین شخصیات میں ہوتاہے اور ان کی اس دولت میں ان کی سیاست کے عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔لاطینی امریکا کے اخبارات میں براہ راست فونسیکا کانام لے کر ان پر کرپشن اورمنی لانڈرنگ کے اسکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات عاید کیے گئے۔زیادہ آرٹیکلز میں ارجنٹائن کی سابق صدر کرسٹینا کرچنر کا حوالہ دیاگیا ہے، ان الزامات کے حوالے سے لیبیا کے مقتول مر د آہن کرنل معمر قذافی اور شام کے صدر بشارالا سد کے نام بھی لیے جاتے ہیں تاہم یہ تفصیلات نہیں ملتیں کہ قذافی اور بشارالاسد کا موزاک سے کس طرح تعلق ہوسکتاہے جبکہ موزاک فونسیکا ایسے کسی تعلق کی تردید کرتی ہے۔
اب ہمارے سامنے آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمندر ڈیویو گنلاگسن کے بارے میں کاغذات تھے، وہ 2007 میں اپنی بیوی اینا سیگورلاگ کے ساتھ ونٹیرس انکارپوریٹیڈ نامی کمپنی کے شیئر ہولڈر کے طور پر منظر عام پر آئے ۔یہ کمپنی ورجن آئی لینڈ میں قائم تھی ۔2009کے آخر میں اس وقت جب ان کاسیاسی کیریئر عروج پر تھا انھوں نے اپنی اس کمپنی کے 50فیصد شیئرز صرف ایک ڈالر کی علامتی قیمت پر اپنی اہلیہ کے نام کر دیے۔اس کے بعد سے ان کی اہلیہ اینا سیگورلاگ کانام موزاک فونسیکا کی فائل میں اس پوری کمپنی کی مالک ،ڈائریکٹر اورشیئرہولڈر کے طورپر درج کرلیاگیا۔اس کمپنی کے ڈیجیٹل فولڈر میں ان کے شناختی کارڈ کی اسکین شدہ کاپی بھی موجود ہے جوکہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی کمپنیوں کے رجسٹر کے مطابق اب بھی سرگرم ہیں۔
سگ مندر ڈیویو نے یہ کمپنی 2007 میں قائم کی تھی اور اس کے 6سال بعد یعنی مئی2013 میں وہ آئس لینڈ کے وزیراعظم بن گئے ۔جب وہ آئس لینڈ کے پروگریسو پارٹی کے چیئرمین تھے تو بھی وہ اس کمپنی کے شیئر ہولڈر تھے، یہ ایک دلچسپ خبر تھی کہ ایک ایسے وقت جب پورا یورپ ٹیکس چوری کے خلاف جنگ میں مصروف تھا ،آئس لینڈ کے وزیر اعظم خفیہ آف شور کمپنی کے مالک بنے ہوئے تھے۔ اخبارات یہ کہہ سکتے ہیں کہ آف شور کمپنیوں نے آئس لینڈ کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ،غیر قانونی قرض ان کمپنیوں کے ذریعے لے جائے گئے بعد میں اس میں ملوث بعض افراد کو قید وبند کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔
ہم جن لوگوں کے کاروبار کے بارے میں چھان بین کررہے تھے ان میں صرف آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمندر ڈیویو گنلاگسن ہی شامل نہیں تھے بلکہ ہم اس کے ساتھ ہی ایک دوسری کمپنی کے نام کا بھی جائزہ لے رہے تھے جو بار بار ہمارے سامنے آرہاتھا ۔ جلد ہی ہمیں آن لائن پر موجود شیل کمپنیوں میں سے ایک اور کمپنی مل گئی ۔ پاناما کی اس کمپنی کانام تھا نکس ٹیٹ ڈیولپمنٹ ایس اے ،یہ کمپنی غالباً اس وقت کے نکاراگوا کے صدر آرنولڈو ایلی مین کے زیر کنٹرول تھی۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اس شخص کو اپنے وقت کے 10کرپٹ ترین افراد میں سے ایک قرار دے چکاتھا۔ اسٹولن اسیٹ ریکوری اینی شیٹو کے تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ ایلی مین نکسٹیٹ اور دیگر شیل کمپنیوں کو سرکاری خزانے سے لوٹے گئے 100 ملین ڈالرز کو اپنے اکائونٹ میں منتقل کرنے کے ذریعے کے طورپر استعمال کرتاتھا ۔اسٹولن اسیٹ ریکوری اینی شیٹو عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم سے متعلق ادارے کے مابین مشترکہ پراجیکٹ ہے اور اس کامشن چوری اور لوٹی گئی دولت اور اثاثوں کی بازیابی میں مدد دینا ہے۔ یہ ادارہ ایسی
رقوم کاسراغ لگاتاہے جو آٹوکریٹ اور آمر اپنے ملکوں سے چرا اور لوٹ کر جمع کرتے ہیں۔