اقتصادی تعاون تنظیم کا اجلاس امیدیں اور توقعات
شیئر کریں
اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کا انعقادپاکستان ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے ممالک کے لیے آپس میں مل بیٹھنے اور باہمی مسائل پر تبادلہ خیالات کرنے کا ایک خوش آئند موقع ہے۔ اس حوالے سے یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سربراہ اجلاس کے انعقاد سے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہوگا۔تنظیم کے کل 10 رکن ممالک ایران، ترکی، پاکستان، افغانستان، آذربائیجان، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغزستان اور قازکستان کے سربراہانِ مملکت و حکومت اس اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ای سی او سربراہ اجلاس، جہاں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے بھارتی دعوے کی نفی ہے، وہاں یہ اجلاس سی پیک کی اہمیت کا بھی زبردست عکاس ہے۔اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کا مقصد توانائی، بنیادی ڈھانچے، ٹرانسپورٹ اور تجات کے شعبوں میں تعاون کو بڑھانا ہے۔
اجلاس کے حوالے سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا یہ کہنا وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے کہ انسانی اور مادی وسائل کو مکمل طور پر بروئے کار لاتے ہوئے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کو ایک موثر اقتصادی اتحاد میں تبدیل کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اقتصادی تعاون تنظیم کے 13ویں سربراہ اجلاس سے قبل وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ بین الاقوامی تجارت پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مشیر خارجہ نے اقتصادی تعاون تنظیم کے تجارتی معاہدے پر عملدرآمد، تجارتی اور غیر تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے اور خطے میں آزادانہ تجارتی علاقہ قائم کرنے پر بھی زور دیا۔پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی افادیت سے شرکاءکو آگاہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ راہداری سے خطے میں تجارتی مواقع بڑھیں گے۔اس موقع پر سرتاج عزیز نے اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو دوسرے ممالک سے تجارت کے لیے گوادر اور سی پیک استعمال کرنے کامشورہ بھی دیا۔
اس خطے میں واقع تمام ممالک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت خطے کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور بین العلاقائی منظم جرائم شامل ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے اور خطے کے ترقی اور پیداوار کو آگے بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کے حوالے سے تمام معاشی اشاریے مثبت ہیں جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان انسداد دہشت گردی کی جامع پالیسی پر عملدرآمد کر رہا ہے اور تجارت کے لیے ایک محفوظ راہداری فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم میں ارکان کی تعداد، وسعت اور سرگرمیوں کو بڑھانے پر توجہ دی جائے تاکہ اس خطے کے دیگر ممالک بھی باہمی تجربات سے فائدہ اٹھاسکیں اور باہمی کاروبار کو ترقی دے کر اپنی معیشت کو مستحکم کرسکیں، اس حوالے سے رکن ممالک کے بینک اور ای سی او رای انشورنس کمیٹی قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے ای سی او پارلیمانی اسمبلی کے پلیٹ فارم استعمال کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
ای سی اوکے اس اجلاس کے حوالے سے ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ اس اجلاس میںافغانستان کی اعلیٰ سطح کی نمائندگی نہیں ہوگی اور افغان سربراہ مملکت یا چیف ایگزیکٹو کے بجائے پاکستان میں تعینات افغان سفیر اور صدر کے خصوصی ایلچی ڈاکٹر عمر زاخیلوال ای سی او اجلاس میںافغانستان کی نمائندگی کریں گے۔بظاہر ایسا محسوس ہوتاہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا معاملہ تاحال حل نہ ہونے کی وجہ سے کابل نے اسلام آباد میں ہونے والے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے اجلاس میں اعلیٰ سطح کے نمائندے بھیجنے سے گریز کیاہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے گزشتہ دنوں کہا تھاکہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی پر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں،اور امید ظاہر کی تھی کہ ای سی او اجلاس کی سائیڈ لائن میں اس حوالے سے بہتری دیکھنے کو ملے گی،لیکن افغان رہنماﺅں نے دانش مندی کے بجائے جذباتی فیصلہ کرکے باہمی تعلقات کی تلخیوں کو ختم کرنے کا ایک سنہری موقع گنوادیا۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس حوالے سے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری یہ واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان پرامن پڑوسی کے طور پر خوشحالی کے اس سفر میں شریک ہو۔ اسلام آباد، کابل میں امن چاہتا ہے اور اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے، مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ کابل پاکستان کے خلاف اپنی زمین کے استعمال کو روکے گا۔خیال ہے کہ پاکستان کی جانب سے اجلاس میں خطے کے عوام کے فائدے کے لیے زیادہ رابطے اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا جائے گا۔افغانستان کو ای سی او کے معاشی منصوبوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔
امید کی جاتی ہے کہ ای سی او سربراہ اجلاس میں شریک سربراہ مملکت اور حکومت اس خطے کے عوام کی سلامتی اور معاشی ترقی کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینے کی قابل عمل تجاویز پیش کریں گے اور اس طرح اس سربراہ کانفرنس کو ایک تاریخی کانفرنس بنادیں گے۔اس کانفرنس کی کامیابی سے بھارتی حکمرانوں کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ صرف الزام تراشی سے کسی ملک کو دنیا میں یکہ وتنہا نہیں کیاجاسکتا اوراس خطے کے ملکوں کا مشترکہ مفاد باہمی تعاون اور اشتراک میںہے۔