پاکستانیوں نے سوئس بینکوں سے دولت کی منتقلی شروع کردی!
شیئر کریں
٭ پاکستانی دولت مندوں نے صرف 2016 میں سوئٹزرلینڈ کے تین بڑے نجی بینکوں سے 30 بلین ڈالر سے زیادہ رقم نکال کر دیگر ممالک کے بینکوں میں منتقل کی
ایچ اے نقوی
حکومت پاکستان کی جانب سے سوئس حکومت سے دُہرے ٹیکسوں کے مسئلے پر دوبارہ مذاکرات کرنے کا فیصلہ حکومت کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوا ہے،کیونکہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کی دولت سوئس بینکوں میں جمع کرنے والے دولت مندوں کی ایک اندازے کے مطابق مجموعی طورپر کم وبیش 200 ارب ڈالر کے مساوی رقم سوئس بینکوں میں جمع ہے۔ اب پاکستانیوں نے اپنی رقوم سوئس بینکوں سے نکال کر دیگر ممالک کے بینکوں میں منتقل کرنا شروع کردی ہے۔
ستمبر 2014 میں وفاقی حکومت نے سوئس حکومت کے ساتھ ٹیکسیشن کے معاملے پر معاہدے پر دستخط کے باوجود اس پر دوبارہ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔وفاقی ریونیو بورڈ کے ذرائع کے مطابق اس حوالے سے پاکستان کے ٹیکس حکام کی جانب سے معاہدے کی ابتدا سوئٹزرلینڈ میں کرنا ہمارے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے اربابِ اختیار کو پسند نہیںآیا جس کاثبوت یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان پہنچتے ہی متعلقہ افسرپر اپنے اعلیٰ حکام کو نظر انداز کرکے بالا بالا ہی معاہدہ کرنے کاالزام عائد کرکے چند دن کے اندر ہی اس کاتبادلہ کردیاگیا ۔
الزامات در الزامات کے اس کھیل میں دو سال کا عرصہ گزرگیا اور اس دوران میں پاکستان سے جمع کی گئی دولت سوئس بینکوں میں رکھنے والے دولت مندوں کو اپنی دولت سوئس بینکوں سے نکال کر دنیا کے ایسے دیگر ممالک کے بینکوں میں منتقل کرنے کاموقع مل گیاجہاں اس طرح کی دولت ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوتی ہے۔میڈیا کی رپورٹس کے مطابق صرف 2016 میں پاکستانی دولت مندوں نے سوئٹزرلینڈ کے تین بڑے نجی بینکوں یوبی ایس، کریڈٹ سوئس اور جولیس بائیر سے 30 بلین ڈالر سے زیادہ رقم نکال کر دیگر ممالک کے بینکوں میں منتقل کی۔
سوئس حکومت سے 2014 میں مذاکرات کرنے والے افسران سے بات چیت اور کابینہ کے ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ سوئس حکومت کے ساتھ دُہرے ٹیکس کے سوال پر مذاکرات کرنے والے افسران کو سوئس حکومت کے ساتھ اس حوالے سے کوئی بھی معاہدہ کرنے کا پورا اختیار تھا۔لیکن ارباب اختیار کی جانب سے اس معاہدے پر عملدرآمد روک کر اس حوالے سے دوبارہ مذاکرات کرنے کے فیصلے سے ان لوگوں کو ایف آئی اے نے جن کے نام غیر قانونی طورپر دولت جمع کرنے اور سوئس بینکوں میں جمع کرانے کے حوالے سے ظاہر کیے تھے اپنی یہ دولت سوئس بینکوں سے نکالنے اور اسے دنیا کے دیگر ایسے ممالک میں منتقل کرنے کا سنہری موقع مل گیا جہاں ان کو اپنی اس دولت پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرناتھا۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف اس طرح کے ثبوت پیش کیے ہیں۔
ایف آئی اے کی اس رپورٹ میں صاف صاف لکھا ہواتھا کہ سوئٹزرلینڈ کی میسرز انس بیچر (شیویز) اے جی شریف فیملی کی آف شور کمپنیوں کا انتظام چلاتی ہے یعنی ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ ایف آئی اے کی اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیاتھا کہ میسرز انس بیچر کمپنی کے ایک ڈائریکٹر نے دو دیگر آف شور کمپنیوں نیسکول لمیٹڈ اور نیلسن لمیٹیڈ کو 1993-1995- اور1996 میں لندن میں دو پرتعیش فلیٹ خریدنے کی ہدایت کی تھی۔ٹم سبستیان نے 1999 میں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کا جو انٹرویو کیاتھا اس میں حسن نوازنے بتایا تھا کہ نیلسن اور نیسکول دونوں ہی کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی کی ذیلی کمپنیاں تھیں۔جن کی دیکھ بھال سوئٹزرلینڈ میں قائم ایک کمپنی کرتی ہے۔
ذرائع کے مطابق اگست 2014 میں پاکستان نے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ایک نظر ثانی شدہ معاہدہ کیا جس کے تحت پاکستان کو سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے جمع کردہ 200 بلین ڈالر ز جن کے بارے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا دعویٰ ہے کہ پاکستانیوںنے غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ یہ رقم سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کرائی ہے، کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کاحق حاصل ہوگیا ۔ذرائع کے مطابق 2014 میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت پاکستان کی حکومت کو سوئس بینکوں میں جمع کی ہوئی اس رقم کے بارے میں تمام تفصیلات بتانے یہاں تک کہ بینکوں کے راز میں رکھے جانے والے اکاﺅنٹ کی تفصیلات تک رسائی دینے کو بھی تیار ہوگئی تھی۔اگر اس وقت اس معاہدے پر عملدرآمد کرلیاگیاہوتاتو پاکستان کو جنوری 2015 میںاس حوالے سے تفصیلات کی پہلی قسط موصول ہوجاتی ۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر اکرام الحق نے اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیاتھا کہ شریف فیملی نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کے بینکوں سے لاکھو ں پونڈ کے قرض حاصل کیے ۔سوئس حکومت کے ساتھ ابتدائی معاہدے کو معطل کرکے دوبارہ مذاکرات کے فیصلے کادفاع کرتے ہوئے ایف بی آر یعنی وفاقی ریونیو بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ سوئس بینکوں میں جمع پاکستانیوں کی رقم کے حوالے سے سوئٹرزلینڈ کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والی پاکستان کی ٹیم نے سوئس حکومت کواس رقم پر آمدنی کی شرح پر ٹیکسوں میں بھاری چھوٹ دینے کاوعدہ کیاتھا۔ اس کے علاوہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے بعض شعبوں میں انتہائی ترجیحی یا پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا بھی وعدہ کیاگیاتھا۔تاہم ذرائع کاکہناہے کہ یہ رعایتیںدینے کاوعدہ سوئس حکومت کی جانب سے بینکوں کی اہم معلومات فراہم کرنے پر رضامندی کااظہار کیے جانے کے بعد کیاگیاتھااور اس پر دوبارہ مذاکرات کرنے کامقصد بھی یہی تھا۔اس حوالے سے یہ الزام بھی لگایاجاتاہے کہ سوئس حکومت سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ارکان نے کابینہ سے معاہدے کی منظوری حاصل نہیں کی تھی لیکن کابینہ کے ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ ستمبر2013 میںریونیو ڈویزن کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک سمری میںکابینہ نے پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان دہرے ٹیکسیشن سے بچنے کیلئے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنے والی ٹیم کو معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنے کی اجازت دی تھی۔
ذرائع کا کہناہے کہ ٹیکس کی شرح میں 5فیصد کی رعایت کی پیشکش صرف ان کمپنیوں کو کی گئی تھی جو کم از کم 50 فیصد شیئرز کی مالک ہوںیہ رقم موجودہ حد سے دگنی ہے اوراس پرعمل سے غیر ملکی سرمائے کی پاکستان آمد میں اضافہ ہوتا۔ ذرائع کاکہناہے کہ اوای سی ڈی کے عدم وجوداور ٹیکنیکل سروسز پر فیس کے حوالے سے خصوصی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ مذاکرات کرنے والی ٹیم کو اس رعایت کی پیشکش کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا تھا۔اگرچہ اس معاہدے میں ٹیکس کی شرح ذرا کم رکھی گئی تھی لیکن اخراجات کی قابل قبول حد میں اضافہ کردیاگیاتھا۔
اس کے باوجود ایف بی آر کے ترجمان کااصرار ہے کہ پاکستان نے سوئس حکام سے دوبارہ رعایتیں حاصل کرلی ہیں اور اس حوالے سے جلد ہی معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔