معاشی بحران کی دلدل میں دھنستا ہوا، امریکا
شیئر کریں
’’امریکا ایک بڑے معاشی بحران کا شکار ہونے سے فقط چند سال کے فاصلے پر ہے، جس کے دوران امریکی ڈالر زبردست گراوٹ کا سامنا کرے گا کیوںکہ امریکا اپنے بڑھتے ہوئے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ڈالر کو بڑی تعداد میں چھاپے گا، جب کہ امریکی برآمدات کی عالمی مانگ میں بھی آنے والے وقت میں زبردست کمی ہونے والی ہے۔ یوںجب ڈالر کی مانگ کم اور اس کی فراہمی زیادہ ہو تو اس کی قدر، دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں قدر گرنا شروع ہوجائے گی۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوگا کہ امریکا میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں افراط زر بڑھ جائے گا اور کرنسیوں کی مالیت کے درمیان طویل المدت مساوات (Purchasing Power Parity) کا قانون ڈالر کی مالیت کو کم کردے گا۔‘‘ یہ الفاظ ریمنڈ ڈالیو، کے ہیں جو ایک ممتاز فنڈ منیجر اور ایک ارب ڈالر ہیج فنڈ کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے1001 امیر ترین افراد کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ریمنڈ ڈالیو نے امریکی ڈالر کے بحرانی کیفیت سے دوچار ہونے کی قبل ازوقت پیش گوئی 2008 میں کی تھی۔
واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ڈالر نے دنیا پر تنہا حکمرانی کی ہے۔ شروع میں جب ڈالر دنیا کی ریزرو (reserve) کرنسی بنا تو اس نے تمام ممالک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے ہمیشہ اس کے بدلے ایک خاص مقدار میں سونا فروخت کرے گا۔ لیکن جب 1791 میں فرانس نے اپنے ڈالر کے ذخائر کے عوض سونا مانگا تو اس نے انکار کردیا اور امریکا نے’ ’ڈالر سونا تبادلے‘ ‘کا وعدہ ختم کردیا۔ لیکن اس کے بعد امریکی معیشت کی ترقی اور اس کی سیاسی طاقت نے ڈالر کی مانگ کو نہ صرف مستحکم رکھا، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا، کیوںکہ دنیا کے ترقی پزیر ممالک نے ہمیشہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی بنکوں میں رکھنازیادہ محفوظ تصور کیا ہے۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد ڈالر کو کوئی مزید خطرہ باقی نہ رہا۔نیز دیوار برلن کے انہدام اورعالم گیریت کے آغاز نے ڈالر کی شہنشاہی کو مزید چار چاند لگا دیے۔لیکن گذشتہ دو عشروں سے جاری متعدد جنگوں نے امریکی معیشت کو تہ و بالا کردیا ہے، جب کہ چین کی شکل میں ایک نئی معاشی طاقت امریکا کے مقابل یوں آ کھڑی ہوئی ہے کہ وہ بس آگے نکلا ہی چاہتی ہے۔ پھر یورپ نے بھی خود کو امریکا سے دُور کرنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ ان حالات میں ڈالر کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو اس نئی صدی کے آغاز پر تھی بلکہ اب اس کی مانگ گررہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس کی بادشاہی مکمل ختم ہوجائے۔
جرمن کے’’ڈوئچے بینک‘‘نے آئندہ برس امریکا میں کساد بازاری کی پیش گوئی کردی،اس کی وجہ امریکا کے فیڈرل ریزرو بینک کی طرف سے شرح سود میں اضافہ ہے جو اس نے مہنگائی سے نمٹنے کے لئے کیا ہے اور آئندہ بھی شرح سود میں اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا بینک ہے جس نے امریکی کساد بازاری کی پیش گوئی کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی مانیٹری پالیسی میں زیادہ جارحانہ سختی معیشت کو کساد بازاری کی طرف دھکیل دے گی۔فیڈرل ریزرو بینک نے تین سالوں میں پہلی بار شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا کو1982کے بعد سب سے زیادہ افراط زر کا سامنا ہے پالیسی سازوں نے مارچ میں شرحوں میں ایک چوتھائی فی صد اضافہ کیا، اب نصف فی صد کا اشارہ دیا ہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے فیڈرل ریزرو بینک نے افراط زر میں اضافے کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت لمبا انتظار کیا ، سود کی شرحوں میں اضافے سے صارفین اور کاروباری قرضوں میں بلند شرحیں پیدا ہوتی ہے،جو آجروں کو اخراجات میں کمی کرنے پر مجبور کرکے معیشت کو سست کر دیتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی طرف سے مزید سختی سے کسادی بازاری شروع ہوجائے گی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا میں آٹھ اعشاریہ چار فی صد تک افراط زر پہنچ چکا ہے جو چالیس سال بعد سب سے بلند شرح ہے۔ڈوئچے بینک نے خبردار کیا ہے کہ بے روزگاری کی شرح1950کی دہائی کی شرح پر آجائے گی اور فیڈرل ریزرو بینک کو 2023کے آخر اور2024کے اوائل میں امریکا میں ایک بڑی کساد بازاری کی توقع ہے اور حالات بہتر ہونے سے پہلے مزید خراب ہوں گے۔گولڈ مین سکس نے اگلے دوسالوں میں کساد بازاری کے امکانات کو35فی صد پر رکھا ہے۔ فیڈرل ریزرو بینک کا افراط زر کے حوالے سے ہدف چھ فی صد ہے جب کہ اس وقت ساڑھے آٹھ فی صد ہے۔ یعنی امریکی جی ڈی پی حیران کن حد تک سکڑ گئی جو امریکا کے لیے ایک بڑا اقتصادی ریڈ الرٹ ہے۔ امریکی معیشت 2020 کے بعد پہلی بار سکڑی ہے، اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ایک اعشاریہ چار فیصد گر گئی۔اس کی وجہ تجارتی توازن میں بگاڑہے، یعنی درآمدات میں زیادتی اور برآمدات میں کمی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے اس سال کساد بازاری کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
بعض ماہرین معاشیات کو بھی خدشات لاحق ہیں کہ امریکا میں بڑھتی ہوئی کساد بازاری عالمی درآمدی طلب کو کم کر دے گی اور بے شمار ممالک کی مالیاتی منڈیوں میں افراتفری کا باعث بنے گی۔کیونکہ اِس وقت امریکی کساد بازاری کا خطرہ اپنی آخری حد کو چھو رہا ہے۔دوسری جانب یہ بھی درست ہے کہ امریکی حکومت ہنگامی بنیادوں پر بڑھتے ہوئے افراط ِ زر کو کم کرنے نئی معاشی پالیسیاں متعارف کروانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، لیکن غالب امکان یہ ہی ہے کہ یہ پالیسیاں خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکیں گی اور ان کے نتیجے میں افراط زر کو کو کسی حدتک کم کرنے میں ضرور مدد مل سکتی ہے لیکن اس سے کساد بازاری کے خدشات بڑھ جائیں گے۔نیز امریکہ میں شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔ کیوں کہ سرمایہ کار امریکہ کے سرکاری اور کارپوریٹ بانڈز میں پیسہ لگانے کی جانب متوجہ ہوں گے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں امریکہ ان کی سرمایہ کاری کے لیے زیادہ محفوظ ہے اور شرحِ سود میں اضافے سے ان کے منافع کی شرح بھی بڑھ جائے گی۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سرمایہ کار غریب اور ترقی پذیر ممالک سے اپنا سرمایہ نکال کر امریکہ میں لگائیں گے۔ سرمائے کی اس منتقلی سے ترقی پزیر ممالک کی کرنسیوں کی قدر مزید گراوٹ کا شکار ہوجائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭