میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مردم شماری کے حوالے سے بلوچستان قومی یکجہتی جرگے کے مطالبات

مردم شماری کے حوالے سے بلوچستان قومی یکجہتی جرگے کے مطالبات

ویب ڈیسک
منگل, ۲۱ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

ساراوان ہاو¿س کوئٹہ میں نواب زادہ لشکری رئیسانی کی زیر صدارت ہونے والے جرگے نے( جس میں صوبہ بلوچستان کے تین سابق وزرائے اعلیٰ سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب غوث بخش کے علاوہ دیگر سیاسی رہنما و قبائلی عمائدین بھی شریک تھے) مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں بدامنی کے باعث بے گھر ہونے والے لوگوں کی مردم شماری میں شمولیت ممکن بنائی جائے جبکہ غیر ملکیوں کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ جرگے نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں افغان مہاجرین کی موجودگی کے حوالے سے مقامی افراد کے تحفظات کو دور کیا جائے۔ جرگے میں مردم شماری کے حوالے سے مقامی سیاسی طاقتوں کے تحفظات و خدشات پر بھی بحث کی گئی۔سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے واضح کیا کہ غیر ملکیوں کی موجودگی میں مردم شماری قبول نہیں کریں گے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل کا کہنا تھا کہ بلوچوں اور پشتونوں کے رشتے صدیوں پرانے اور کسی ایم پی اے سیٹ کے محتاج نہیں،ہم نے غیر ملکیوں کی بہت مہمان نوازی کی لیکن ان کو جائیداد میں حصہ نہیں دے سکتے۔جرگے نے صوبے میں صاف وشفاف مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے غیر ملکیوں کا مسکن رہا ہے لہٰذا انہیں مردم شماری میں کسی صورت شامل نہ کیا جائے۔لشکری رئیسانی نے کہا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ صوبے میں سیکورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی جلد بحالی نو کی جائے اور انہیں بھی مردم شماری میں شامل کیا جائے۔
مردم شماری کو کسی بھی ملک اور صوبے کی ترقی کی منصوبہ بندی کا بنیادی پیمانہ تصور کیاجاتاہے ،جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ کس صوبے کی آبادی کتنی ہے، اس صوبے کے عوام کی بنیادی ضروریات کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا، اور جب تک ضروریات کا پیمانہ ہی سامنے نہ ہو تو ان ضروریات کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی کیسے کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں لوگوں کو بنیادی سہولتوں کے حوالے سے لاحق شکایات کاایک بڑا سبب یہی ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی بھی شفاف مردم شماری پر توجہ نہیں دی گئی اور ہمیشہ مردم شماری کے حوالے سے سیاسی اور علاقائی مفادات آڑے آتے رہے، اس لیے ہمارے منصوبہ سازوں کو کبھی اس بات کاحتمی طورپر علم ہی نہیں ہوسکاکہ ہمارے کس صوبے ، ضلع ،تحصیل اور شہر کی آبادی کتنی ہے۔اس طرح محض تصورات پر کی جانے والی منصوبہ بندی کی وجہ سے کم وبیش ہر علاقے کے لوگ بنیادی سہولتوں کی کمیابی اور فقدان کے شاکی رہے، اب جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ارباب اختیار نہ چاہتے ہوئے بھی مردم شماری کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اوراعلان شدہ پروگرام کے مطابق ملک بھر میں 19 سال بعد مردم شماری کا انعقاد کیا جارہا ہے اور اس کے لیے 15 مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔حکومت کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق ملک کے 147 میں سے 62 اضلاع میں پہلے اور 85 اضلاع میں دوسرے مرحلے میں مردم شماری ہوگی۔شیڈول کے مطابق کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ کے 8 اضلاع میں پہلے جبکہ دیگر 21 اضلاع میں دوسرے مرحلے میں مردم شماری ہوگی۔ پنجاب کے لاہور، جھنگ، فیصل آباد اور بہاولپور سمیت 15 اضلاع میں پہلے جبکہ باقی 19 اضلاع میں دوسرے مرحلے میں مردم شماری ہوگی۔اسی طرح خیبر پختونخوا کے پشاور سمیت 13 اضلاع میں پہلے جبکہ 11 اضلاع میں دوسرے مرحلے میں مردم شماری کی جائے گی۔شیڈول کے مطابق کوئٹہ سمیت بلوچستان کے 15 اضلاع میں پہلے جبکہ دیگر 17 اضلاع میں دوسرے مرحلے میں مردم شماری ہوگی۔آزاد جموں و کشمیر میں پہلے اور دوسرے مرحلے میں 5، 5 اضلاع میں مردم شماوری ہوگی۔اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی پہلے اور دوسرے مرحلے میں 5، 5 اضلاع میں مردم شماری ہوگی۔مردم شماری کا پہلا مرحلہ 15 مارچ کو شروع ہو کر 15 اپریل جبکہ دوسرا مرحلہ 25 اپریل سے شروع ہوکر25 مئی کو ختم ہوگا۔مردم شماری کے ابتدائی نتائج مردم شماری مکمل ہونے کے دو ماہ بعد تک تیار کر لیے جائیں گے۔
مردم شماری کا شیڈول سامنے آنے کے بعداب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ مردم شماری انتہائی شفاف انداز میں کی جائے تاکہ اس پر کسی بھی علاقے اور سیاسی وعلاقائی جماعت اور رہنماﺅں کے لیے اعتراض کرنے کاکوئی جواز باقی نہ رہے، اس اعتبار سے بلوچستان میں مردم شماری کے حوالے سے نمائندہ قومی یکجہتی جرگے کی سفارشات یا مطالبات بڑی اہمیت رکھتے ہیں،بلوچستان کے لیے یہ مردم شماری اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اس سے بلوچستان کے مختلف شہروں میں آبادی اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے انتظامات کی صحیح صورت حال سامنے آجائے گی۔ اس کے علاوہ اس سے یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کے بقول گزشتہ 3دہائیوں کے دوران ملک کے کن صوبوں سے کتنے لوگوں نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر بلوچستان کا اپنامسکن بنایاہے اور ان کی آمد کی وجہ سے بلوچستان کے کس شہر کی آبادی کے تناسب میں کیاتبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،بلوچستان میں گزشتہ 3دہائیوں میں آکر آباد ہونے والے صوبائی اور وفاقی حکومت کو کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ان کی آمد کی وجہ سے کتنی تعداد میں مقامی لوگوں کو ملازمتیں ملی ہیں۔ان اعدادوشمار کے واضح ہوجانے کے بعد ارباب اختیار اورہمارے منصوبہ ساز زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کرسکیں گے اور اس طرح وفاق کی جانب سے بھاری فنڈز کی فراہمی کے باوجود بوجوہ اس صوبے کو پسماندہ رکھے جانے کے اسباب کاتدارک کرنے کی راہ پیدا کی جاسکے گی۔
امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار مجوزہ مردم شماری کے ذریعے سامنے آنے والے اعدادوشمار کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے انھیں عام کریں گے تاکہ پورے ملک بالخصوص اس پسماندہ صوبے کے عوام کو بھی اندازہ ہوسکے کہ ان کی پسماندگی دور کرنے کے لیے حکومت کو کیاکرناچاہئے جو نہیں کیاجارہاہے، یا ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے فنڈز سے کون کس حد تک استفادہ کررہاہے۔جب تک ایسا نہیں کیاجائے گا اس پسماندہ صوبے کے عوام کے دلوں سے احساس محرومی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں