تین سادہ اورمعصوم آنٹیاں
شیئر کریں
ایک سرکاری جامعہ میں ایک سیمینار ہو رہاتھا۔اس سیمینارکوتمام پاکستانی عورتوں کے دکھ کواپنادکھ سمجھنے اورتمام مظلوم عورتوں کے لیے ایدھی اورچھیپاکادرد رکھنے والی دو سہیلیوں ثمینہ حسین اورنوین حیدرنے منعقد کروایا تھا۔یہ دونوں سہیلیاں پاکستان میں مظلوم ،محکوم اورپسماندہ عورتوں کے لیے مدرٹریساجیسے دل کے ساتھ دن رات جلتی ،کڑھتی ،تڑپتی اورروتی رہتی ہیں ۔لہٰذاآج بھی ان دونوں سہیلیوں نے ایک سیمیناربعنوان ‘Gender,Power and Law’منعقد کروایاتھا۔اسی سیمینارمیں ان کی ایک روحانی سہیلی لیلی حیدربہتے آنسوئوں کے ساتھ کہہ رہی تھیں ،یہ معاشرہ میرے بھائی کے لیے محفوظ ہے مگرمیرے لیے کیوں نہیں ؟یہ معاشرہ ایک مرد کو عورت پرکیوں زیادہ حقوق دیتا ہے؟ آخر کب تک مردعورت کے اوپررہے گا؟مردکی اجارہ داری کب تک چلے گی؟ہم مردوں کے اوپرکب آئیں گی؟ لیلی حیدرنوحہ سناکراسٹیج سے نیچے اتریں تو ان کوفوراان کی دونوں روحانی سہیلیوں نے گلے لگالیااورتینوں سہیلیاں پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں کہ یااللہ عورت کب تک ظلم سہتی رہے گی ؟یہ تینوں آنٹیاں (مجھ سے تینوں عمرمیں بڑی ہیں اس لیے میری آنٹیاں ہوئیں نا؟) صومالیا، یوگینڈا، ایتھوپیا سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ان کاتعلق پاکستان سے ہے۔یہ روزاپنے گھروں سے اپنی مرضی کا لباس پہن کر،دوپٹے گلے میں ڈال کراسی کراچی میں مٹرگشت کرتی ہیں ۔مگرکراچی کے کسی تھانے میں ان کی طرف سے انہیں چھیڑنے کی درخواست درج نہیں ۔یہ مکمل آزادی سے اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں مگرپھربھی یہ غالب مسلمانوں کی آبادی والے شہرجہاں سیکڑوں مدرسے ،مسجدیں ، امام بارگاہیں ہیں وہاں کے لوگوں کے ساتھ ایسے سیمینارمنعقد کرکے چھیڑچھاڑکرتی رہتی ہیں ۔ اور سونے پرسہاگہ ان تین میں سے دو توسرکاری ملازمہ ہیں ،ہرمہینے سرکار سے 60,70ہزارتنخواہ لے کریہ میری آنٹیاں اپنے نظریہ کوفروغ دیتی ہیں ۔ چوں کہ میں نے ان معصوم اورنیک خواتین کو آنٹی ماناہے لہٰذاکوئی اوران کواصل پاکستان دکھائے نہ دکھائے میں توایک اچھے بھانجے کی حیثیت سے اپنافرض پوراکروں گا۔اگرکوئی میری ان آنٹیوں سے پوچھے کہ اگرپاکستان اچھاملک نہیں ہے! یہاں عورتوں کی عزت محفوظ نہیں ہے توپھراچھاملک کیساہوتاہے؟وہ فوراکہیں گی :امریکا جیسا، یورپ جیسا۔اب میں اپنی آنٹیوں کو بتاتا ہوں کہ امریکا اوریورپ میں عورت کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟امریکا کے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں ، دفاتر، کارخانوں ، دکانوں ، مارکیٹ، کمپنیوں میں ترقی کے لیے جانے والی لڑکیوں ، عورتوں بلکہ لڑکوں ،مردوں کے ساتھ مغرب میں کیا ہورہا ہے اس کی ایک جھلک امریکی ایوان صدر سے جاری ہونے والی جنوری 2014ء کی رپورٹ Rape and sexual Assualt:A Reviewed call to actionمیں پڑھیں ۔اس رپورٹ کے مطابق 2 کروڑ 20لاکھ امریکی عورتوں سے اور20لاکھ امریکی لڑکوں سے زبردستی کی جاتی ہے، رضامندی سے ہونے والی وارداتیں توگنی ہی نہیں جاسکتی ہیں ۔ لڑکوں اورلڑکیوں کے ساتھ سب سے زیادہ زبردستی اسکول،کالج اوریونیورسٹی میں کی جاتی ہے۔ یہ لڑکوں اور لڑکیوں کی عزتیں لوٹنے والے ان کے جگری دوست، عشاق، قریبی رشتہ دار، اعتماد کے لوگ اورخونی رشتوں والے ہوتے ہیں ۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکول،کالج اوریونیورسٹی میں عزتیں لٹوانے والوں میں سے صرف 12فیصد رپورٹ درج کرواتے ہیں ،رپورٹ کاسب سے دلچسپ جملہ اورپوری ترقی اورآزادی کے عقیدے کو ننگاکرنے والاجملہ یہ ہے کہ امریکی ثقافت میں ابھی تک مردیہ سمجھتے ہیں کہ عورت خودمردسے جنسی تعلق قائم کرناچاہتی ہے یعنی عورت کواس مقصد کے لیے پیداکیاگیاہے۔وائٹ ہائوس کی اس رپورٹ کے صفحہ نمبر 33اور27پرلکھاہے ۔
Sexual assault is perrasive because our culture still allows it to persist (p.33)
…… women want to be raped and ask for it (p.27)
اورایساہی حال امریکی فوجی اپنے ساتھی فوجیوں اور ساتھی عورتوں کے ساتھ بھی کرتے ہیں ۔اب میں اپنی آنٹیوں کویورپ کی سیر کرواتا ہوں ، یورپین ایجنسی فارفنڈامینٹل رائٹس نے یورپی یونین کے 28 ممالک میں عورتوں کے ساتھ ظلم کی داستان
Violence against women: an Eu – Wide Survey – Main results نامی تحقیق کی روشنی میں بیان کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک سال میں ایک کروڑبیس لاکھ عورتوں کوجسمانی تشددکاسامناکرناپڑا،اورظلم صرف جوان لڑکیوں پرنہیں 75سال کی بوڑھی اماں پربھی ہوا۔رپورٹ کے مطابق یورپ میں 20 میں سے1عورت 15سال کی عمرمیں جبری زیادتی کاشکارہوتی ہے ۔یعنی 5فیصدیورپی عورتوں کو ہر سال زبردستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے 28ممالک کی 4 کروڑ عورتوں نے شکایت کی کہ مردانہیں اپنی نظروں سے اذیت کانشانہ بناتے ہیں ۔اوریہ تمام ظلم امریکااوریورپ میں عظیم نظام عدل ،ان کی برق رفتارپولیس ان کے موبائل فون،ان کے کمپیوٹربھی نہیں روک پاتے۔ یورپ میں انسان توانسان ٹھہرے، جانور بھی محفوظ نہیں ہیں ۔فرانس نے 2013ء میں Marrige for all(شادی سب سے) کا قانون پاس کردیا ہے جس کے بعد کسی سے بھی شادی کی جاسکتی ہے یعنی کتے، بندر، بکری الغرض کسی جانور سے بھی۔ یورپ کے جانوربھی حیران ہیں کہ کس دورمیں پیداہوگئے ہیں یہ ترقی یافتہ انسان توہماری عزتیں لوٹنے سے بھی باز نہیں آرہے ہیں ۔یہ امریکا اوریورپ کی ایک جھلک ہے۔ مکمل تصویرایک مضمون میں دکھاناممکن نہیں ۔ اسی یورپ میں 2کروڑدس لاکھ لڑکے اپنے دوستوں کے ہاتھوں ہراساں کیے گئے ہیں ،سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ اسی رپورٹ کے مطابق کینیڈامیں 32فیصدبچے گھروں میں اپنوں کے ہاتھوں جسمانی اورجنسی دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں ۔یہ حال ہے اس یورپ اور امریکہ کاجس کی عظمت کے گن ہمارے لبرل دن رات گاتے ہیں ۔ہوسکتا ہے یہ رپورٹس پڑھ کر میری آنٹیاں گہری سوچ میں ڈوب کرآج فیصلہ کریں کہ لعنت بھیجوامریکاویورپ پر،ہم تینوں سہیلیاں اپنی الگ دنیابنائیں گی۔میری آنٹیاں اپنی نئی دنیابنانے کاناقابل عمل خواب تودیکھ سکتی ہیں مگربندے دی پُتر بن کراس دنیامیں نہیں رہ سکتی۔ ثمینہ حسین آنٹی اورنوین حیدرآنٹی آپ لوگ جس سرکاری جامعہ کانمک کھاتی ہیں ناں ،اس جامعہ میں آج تک کسی لڑکے میں اتنی جرات پیدا نہیں ہوئی کہ وہ کسی لڑکی کادوپٹہ کھینچنادورکی بات، صرف دوپٹے کوہاتھ لگاسکے۔یہاں سب کی عزتیں محفوظ ہیں کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا۔آپ کویہ رونادھوناامریکا اوریورپ کی جامعات میں ڈالناچاہئے ،آپ کی بیٹیاں وہاں محفوظ نہیں ہیں ۔اورآنٹی لیلی حیدر!آپ کواب تو پتا لگ گیاناں کہ عورت کی آزادی والے ملک میں عورت کا کیا حال ہے ؟اور یہاں چلیں آپ کی ہی مان لیتے ہیں عورتوں کے حوالے سے ،لیکن آپ کا بھائی تومحفوظ ہے ناں ؟مگر امریکا یورپ میں تو آپ کے بھائی کی عزت بھی خطرے میں پڑی ہے۔ لہٰذابس اتنی گزارش ہے کہ پلیزمیری آنٹیو! کچھ وقت آپس میں مل بیٹھ کرکچھ پڑھ بھی لیا کرو، ہر وقت فتنے فساد نہ سوچاکرو،ویسے کچھ بھی ہو، معلومات کی جس کمی کااندازہ اس سیمینارکوسن کر مجھے ہوااس کے بعدمجھے میری آنٹیاں بہت معصوم اورسادہ معلوم ہوئی ہیں ۔
٭٭