وزیراعظم پاکستان کا کامیاب دورۂ بیجنگ اور اُس کے فقید المثال ثمرات
شیئر کریں
ویسے تو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان چین کا چار روزہ سرکاری دورہ مکمل کر کے اپنے وطن واپس لوٹ آئے ہیں ،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ابھی تک وزیراعظم پاکستان کے دورہ ٔ بیجنگ نے چینی و پاکستانی ذرائع ابلاغ کو پوری طرح سے اپنے سحر میں جکڑا ہواہے۔ہمارے ہاں تو خیر، ہمیشہ سے ہی دورۂ چین کو ہر حکمران جماعت نے عوام کے سامنے اپنا ایک اہم سنگِ میل اور سفارتی کارنامہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اِس بار چینی ذرائع ابلاغ میں جس طرح تادیر ،وزیراعظم پاکستان کے دورہ ٔ چین کا تذکرہ ہورہا ہے وہ انتہائی معنی خیز ہے۔اس واقعہ سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں وزیراعظم پاکستان کا حالیہ دورۂ چین غیر معمولی عالمی سفارتی حالات کے تناظر میں چینیوں کے لیئے حد درجہ اہمیت کا حامل تھا۔ دراصل بیجنگ رواں برس سرمائی المپکس کا میزبان ہے اور امریکا نے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر بیجنگ سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے دنیا کے بے شمار ممالک کے سربراہانِ مملکت نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے سے پیشگی معذرت کرلی تھی۔
اگرچہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کرنے والے ہر سربراہ مملکت نے اپنی نجی مصروفیات کو بطور عذر پیش کیا،لیکن سب جانتے ہیں کہ درپردہ امریکی صدر جوبائیڈن کا شدید سفارتی دباؤ ہی وہ اہم عنصر تھا ،جس نے بیشتر ممالک کو نہ چاہتے ہوئے بھی بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت سے روکے رکھا۔ کیونکہ سرمائی اولمپکس کھیلوں کا سب سے بڑا اور نمایاں عالمی ایونٹ ہے۔اس لئے جوبائیڈن چاہتے تھے کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کا غیر معمولی سفارتی بائیکاٹ کرکے دنیا بھر میں بالخصوص چین کو اپنے خطے میں ہی عالمی تنہائی کی جانب دھکیل دیا جائے ۔ اس سفارتی ہدف کو پانے کے لیے امریکی صدر تقریباً دو ماہ سے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کی عالمی سفارتی مہم چلارہے تھے اور اُن کی آخری لمحے تک بھرپور کوشش تھی کہ دنیا کے کسی بھی اہم ملک کو خاص طور پر چین کے بعض اہم حلیفوں کو بھی بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے سے باز رکھا جائے۔
اس تناظر میں امریکی انتظامیہ، دیگر ممالک کی طرح پاکستان پر بھی اپنا غیر معمولی اثرورسوخ اور سفارتی دباؤ بڑھاتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے وقتاً فوقتاً مطالبہ کرتی رہی تھی کہ وہ بھی بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں سربراہ ِ مملکت کی سطح پر شرکت کرنے کے بجائے اپنے وزیر خارجہ کے ہمراہ ایک نمائندہ وفد کو بھیج کر خانہ پری سے کام لے ۔ذرائع کے مطابق بطور ترغیب و لالچ پاکستانی حکام کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اگر آپ امریکا کا یہ اہم ترین مطالبہ مان لیتے ہیں اور بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں تیکنیکی انداز میں بھرپور شرکت سے باز رہتے ہیں تو بہت جلد نہ صرف امریکا اور پاکستان کے درمیان سرد پڑنے والے سفارتی تعلقات دوبارہ معمول پر آجائیں گے بلکہ امریکا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بھی پاکستان کا نام فوری طور پر نکلوادے گا۔بظاہر پیش کردہ ترغیبات ،کمزور پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی پرکشش معلوم ہوتی تھیں مگر تمام تر معاشی فوائد اور امکانات کو ایک طرف رکھ کر ، پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکی دباؤ کو یکسر مسترد کردیا اور بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاح تقریب میں اپنے وزیراعظم کے شریک ہونے کا سب سے پہلے باضابطہ اعلان کرکے عالمی ذرائع ابلاغ اور امریکی حکام کو حیران کردیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے اعلان کے بعد بھی امریکی صدر جوبائیڈن کی بھرپور کوشش یہ ہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ ٔ چین ،بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے قبل تک ملتوی ہوجائے ۔جیسے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان عین آخری لمحات میں بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شریک نہ ہوسکے ۔ بظاہر اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سرمائی اولمپکس کی تقریب میں اپنے سخت شیڈول کے باعث شریک نہیں ہوسکے اور انہوں نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کی کامیابی کے لیئے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے‘‘۔ذرا ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے کہ اگر ایسی ہی کوئی ملتی جلتی صورت حال وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین کے حوالے سے پیدا ہوجاتی تو کیا ایسے وضاحتی بیانات پاکستانیوں اور چینیوں کے لئے قبول کرنا ممکن ہوسکتے تھا؟۔یقینا نہیں ۔
اس ساری تمہید کو بیان کرنے کا بنیادی مقصد وحید یہ ہے کہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا حالیہ دورہ ٔ چین، مشکل بین الاقوامی حالات میں چینیوں کے لئے کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ ہماری دانست میںاپوزیشن جماعتیں جس انداز میں وزیراعظم پاکستان کے دوۂ چین کو ہدف ِ تنقید بنا رہی ہیں ،وہ غیرضروری ہی نہیں بلکہ پاکستانی خارجہ پالیسی اور پاک چین دوستی کے لیے سخت نقصان کا باعث بھی بن رہا ہے۔ بلاشبہ اپوزیشن جماعتوں کا بنیادی وظیفہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہی ہوتا ہے ۔مگر بعض اپوزیشن رہنماؤں کو بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بار ضرور جائزہ لے لینا چاہیے تھا کہ کیا وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورۂ چین پر تنقید کے نشتر چلانے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو زیادہ نقصان پہنچے گا یا پھر اس زد میں پاکستان اور چین کے سفارتی و دوستانہ تعلقات بھی آسکتے ہیں ۔
بہرکیف ایک بات طے ہے کہ پاکستان اور چین کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم پاکستان عمران خان کا چار روزہ دورۂ چین اپنے اہداف کے لحاظ سے بے پناہ کامیاب رہا اور سب سے بڑھ کر اپنے قیام چین کے آخری روز ،وزیراعظم پاکستان نے چینی صدر شی جن پنگ سے تفصیلی ملاقات بھی کی ۔یاد رہے کہ دونوں عالمی رہنماؤں کی ملاقات بیجنگ کے گریٹ ہال آف پیپل میں ہوئی، اکتوبر 2019میں وزیراعظم کے دورہ چین کے بعد دونوں رہنماؤں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ دونوں رہنماؤں نے پاک چین دوطرفہ تعاون کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا اور خوشگوار ماحول میں باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا، وزیراعظم عمران خان نے اولمپک سرمائی کھیلوں کی کامیاب میزبانی پر چینی قیادت کو مبارکباد دی اور چین کے نئے قمری سال پر چینی عوام کے لئے اپنی خواہشات کا بھی اظہار کیا۔نیز وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چین پاکستان کا ثابت قدم ساتھی، مضبوط حامی اورآئرن برادر ہے، پاکستان اور چین کی شراکت داری نے وقتی آزمائشوں کا مقابلہ کیا اور دونوں ممالک امن، استحکام، ترقی وخوشحالی کے لیئے شانہ بشانہ کھڑے رہے، اس ملاقات میں وزیراعظم نے صدر شی جن پنگ کو جیو اکنامکس، پاکستان کی پائیدار ترقی سے آ گاہ کیا اس موقع پر صنعتی ترقی، زرعی ٹرانسفارمیشن پلان،علاقائی روابط کیلئے پالیسیوں پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا،علاوہ ازیں وزیراعظم نے پاکستان کی سماجی، اقتصادی ترقی کے لئے چین کی مسلسل حمایت اور مدد پر اظہار تشکر بھی کیا اور کہا کہ پاکستان،چین میں شراکت داری خطے میں امن و استحکام کیلئے ضروری ہے۔
دوسری جانب دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد جاری کئے گئے 33 نکاتی مشترکہ اعلامیے میں پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط دفاعی اور سیکورٹی تعاون کو خطے کے امن و استحکام کے لیے بجا طور پر ایک اہم عنصر قرار دیا گیا ہے۔نیز دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے تجارت، انفرا سٹرکچر، صنعتی شعبوں میں ترقی، جدید زراعت، سائنسی اور تکنیکی تعاون اور مقامی لوگوں کی سماجی و اقتصادی بہبود سمیت تمام شعبوں میں تعاون کو مستحکم بنانے کیلئے سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی کو ذمے داری سونپنے پر اتفاق کیا ہے ۔جبکہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے فوری اقدامات پر بھی زور دیا ہے۔مشترکہ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم پاکستان نے صدر شی جن پنگ کو جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔اعلامیے میں چین کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری و سلامتی کے تحفظ اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جبکہ پاکستان نے ون چائنا پالیسی کیلئے اپنی وابستگی اور حمایت کا اظہار اور تائیوان، جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ، سنکیانگ اور تبت کے معاملے پر چین کیلئے اپنی حمایت کو دہرایا ہے۔
واضح ہے کہ وزیراعظم کا دورۂ چین دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنا ہے جبکہ سی پیک منصوبوں کی رفتار اور سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے پچھلے دنوں چینی قیادت کے عدم اطمینان کا تاثر عام تھا۔ تاہم اب باہمی اعتماد کے ماحول کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہوگا کہ سی پیک منصوبوں پر کام میں سست روی کا تاثر مؤثر عملی اقدامات سے دور کیا جائے اور ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر سی پیک منصوبوں پر کام کرنیوالے چینی اورپاکستانی عملے کی یقینی حفاظت کا یقینی بندوبست کیا جائے۔یقینا اس دورہ ٔ چین میں دونوں رہنماؤں کے درمیان سی پیک کے اہم ترین ایم ایل ون کے حوالے سے بھی تفصیلی گفت و شنید ہوئی ہوگی۔ دراصل ایم ایل ون منصوبہ کافی عرصہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے عالمی ذرائع میں یہ تاثر اُبھارا جارہا ہے کہ شاید پاکستان کی جانب سے سی پیک منصوبہ کی تکمیل میں پس و پیش سے کام لیا جارہا ہے۔ حالیہ دورہ ٔ چین میں ایم ایل ون منصوبہ کے جلد ازجلد آغاز کی یقین دہانی ایک اہم ترین پیش رفت ہے۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت حالیہ دورہ ٔ بیجنگ کے ثمرات سے کس حد تک فائدہ اُٹھاپاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
a