میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیڑے مکوڑوں پر مزید ٹیکس

کیڑے مکوڑوں پر مزید ٹیکس

ویب ڈیسک
هفته, ۲ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگران حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی کی شرح میں اضافہ کرتے ہوئے پیٹرول پر ڈیولپمنٹ لیوی بڑھا کر 60روپے اورڈیزل پر 50روپے فی لیٹر کے حساب سے پٹرولیم لیوی کر دی گئی ہے۔ حکومت اس سال عوام سے پٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے وصول کریگی ۔مقروض قوم کے خون سے نچوڑے گئے ان اربوں روپے سے حکومت اور ان کے کارندے مفت میں عیاشیاں کرینگے۔ غیر ملکی دورے بھی ہونگے پارٹیاں بھی ہونگی، کھابے بھی چلیں گے اور موج مستی بھی ہوگی جبکہ ملک میں عوام کو دورے پڑے ہوئے ہیں۔ خودکشیاں ہورہی ہیں مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑیگا ۔وہ اس لیے کہ عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں جس وقت اور جہاں جس کا دل کرتا ہے ،وہ مسل دیتا ہے۔ اس وقت تو ویسے بھی ملک پر عملاًآئی ایم ایف کی حکومت ہے ۔ حکمران بجلی کے بلوں میں عوام کوریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف سے اجازت مانگ رہے ہیں اور انہوں نے انکار کردیا۔ کیاہم آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیراپنی عوام کوریلیف بھی نہیں دے سکتے؟ بجلی کے بعدعوام پرپٹرول بم بھی گرا دیا گیا۔ حکمران طبقہ بار بار عوام پر آئی ایم ایف کی ایماپرپیٹرول اور بجلی بم گرارہا ہے لیکن ا ن کی عیاشیاں ختم نہیں ہورہی ۔ مہنگائی سے ہر شخص پریشان ہے ۔ نوجوان ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ۔اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں اور ایسے حالات میں کوئی لیڈر عوام کے ساتھ نہیں جو ساتھ تھا اسے جیل میںبند کیا ہوا ہے ، امیر جماعت اسلامی نے 2ستمبر کو پہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے لیکن انکی کال سے پہلے ہی مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے جمعہ کے روز ہی ہڑتال کا سماں بنا دیا۔ اسلام آباد، پشاور،کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں تاجروں نے دکانوں اور بازاروں کو تالے لگادیے۔ سکھر ، وہاڑی ، رحیم یار خان، بہاول نگر اورمظفرگڑھ میں بھی تاجروں نے دکانیں نہیں کھولیں۔ آزاد کشمیر میں بھی جمعہ کے روز تاجروں نے دُکانیں بند رکھیں۔ مظفرآباد، ہٹیان بالا، گڑھی دوپٹہ،چکوٹھی، جہلم ویلی،نیلم، اٹھ مقام اور تائوبٹ سمیت کئی شہروں میں بھی شٹر ڈائون ہڑتال کرکے شہریوں نے ٹائروں کو آگ لگا کر غصہ نکالا۔ ملک بھر میں ہونے والی شٹر ڈاؤن ہڑتال موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے خلاف عدم اعتماد ہے۔ انہی حکمران طبقات نے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے ۔معاشی بحران نے ملک اور عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر حکمران اپنی عیاشی کیلئے عوام سے قربانی چاہتا ہے لیکن اپنی عیاشیاں ختم نہیں کررہے۔ بجلی بلوں کے بعد پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ کوئی اور نام نہیں ملا تو ”مزید ٹیکس” کے نام سے ٹیکس ڈال دیا گیا۔ بجلی کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں۔ قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ واپڈا کے ذریعے پوری حکومت چلائی جا رہی ہے اور حکمران خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیوں میں مصروف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کا ہاتھ اپنا گلہ دبانے کے بجائے حکمرانوں کی طرف ہو اور ان سے پوچھیں کہ ہمیں کیوں مرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جمہوری نظام میں حکمران عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران کمفرٹ لیول سے باہر نکلیں سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کے بجائے کچھ بوجھ خود بھی برداشت کرلیں اگرعوام غضبناک ہوئی توپھران کے عیش و عشرت کا نظام تلپٹ ہو جائیگا۔عیش و عشرت سے یاد آیا کہ سابق حکومت نے جاتے جاتے اپنے لوٹ مار کے کیس ختم کروادیے لیکن اس پر سپریم کورٹ میں بھی کیس چل رہا ہے۔ جنہوں نے سرکاری خزانہ جی بھر کے لوٹا اور پھر قانون سازی کرکے اپنے آپ کو فائدے پہنچا لیے اس ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں،خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا اور خواجہ انور مجید کے نیب مقدمات منتقل ہوئے جعلی اکائونٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی کا کیس بھی نیب کے دائرہ کار سے نکل گیا۔آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا جبکہ اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کے خلاف نیب کیس بھی احتساب عدالت سے واپس ہوگئے۔ اس سال مجموعی طور پر 22مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے جبکہ ترامیم کی روشنی میں 25مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کر دیے گئے۔ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے۔ نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔ بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔ نظام انصاف کی باتیں ہو رہی ہیں تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی کل سکھر ہائیکورٹ بار میں کہی جانے والی ایک بات بھی دہراتا چلوں جس میں انکا کہنا تھا کہ انگریز کے زمانے میں قانون کی خلاف ورزی پر سزا ملتی تھی لیکن ہمارے یہاں ایک شخص کے مقدمے کا 45 سال بعد فیصلہ سنایا گیا تو وہ شخص فیصلہ آنے سے 5 سال قبل ہی مرچکاتھا ۔ہمارے یہاں عدالتوں میں انصاف بکتا ہے اور انصاف کے دروازے سونے کی چابی سے کھلتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف ہم سے زیادہ تو خود ججز کر چکے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ وی آئی پیز اور اشرافیہ کے لیے ایک پاکستان تو عام اور غریب لوگوں کے لیے دوسرا ۔ پاکستان جہاں پر لوگوں کو کوئی سہولت نہیں جہاں پر لوگ بھوکے مررہے ہیں۔ ملک میں امن و امان کا قیام خواب بن کر رہ گیا میں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہوں مجھ پرژوب میں حملہ ہوا تو وزیر اعظم شہباز شریف نے جلد حقائق سامنے لانے کی بات کی حقائق تو سامنے نہ آسکے لیکن ان کی حکومت چلی گئی باب الاسلام سندھ میں اس وقت امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے۔ لوگ دن دیہاڑے اغوا ہورہے ہیں ڈکیتی اورلوٹ مار کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ پندرہ سال تک پیپلزپارٹی نے سندھ میں حکومت کی لیکن وہ سندھ کے لوگوں کو امن تک نہ دے سکی۔ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق نے بھی اپنے عوام کے ساتھ محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بجلی کے اضافی بلوں پر وفاقی حکومت پر واضح کیاہے کہ آئی ایم ایف ہمارا ایشو نہیں ہے ۔ وفاقی حکومت ہمارا شیئر اور ہائیڈرل منافع ادا نہیں کررہی۔ ہم پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ حکومت اس قدر بوجھ نہ ڈالے کہ یہ محبت آنے والی نسلوں میں باقی نہ رہے۔ وفاقی حکومت نے اپنے بقایاجات کی مد میں آزادکشمیر کے بجٹ سے 61 ارب روپے کی کٹوتی کی ہے لیکن خالص ہائیڈرل منافع میں سے اپنے حصے کے 400 ارب روپے ادا کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ آخر میں اتنا بتا دوں کہ سندھ میں اس وقت حالات واقعی خراب سے خراب تر ہیں۔ ایک طرف حکومت لوٹ رہی ہے تو دوسری طرف ڈاکو لوٹنے میں مصروف ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں