لاہور میں خودکش دھماکا۔ دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ کارروائی کی ضرورت
شیئر کریں
مال روڈ لاہور میں گزشتہ روز مغرب کے وقت خودکش حملے میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل سمیت کم وبیش 16افراد شہید اور 60 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ، سیکورٹی اہلکاروں نے جائے وقوعہ سے ایک مشکوک شخص کو حراست میں لے لیا۔خبروںکے مطابق لاہور کے علاقے مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے قریب ادویہ ساز کمپنیوں اور میڈیکل اسٹورز کے مالکان کا احتجاج جاری تھا کہ اس دوران 6 بج کر 10 منٹ پر زور دار دھماکا ہوا جس کے بعد جائے وقوعہ پر بھگدڑ مچ گئی ، دھماکے کی جگہ آگ لگ گئی اور دھواں اٹھنے لگا۔اس دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار اور ٹریفک وارڈنز سمیت 60 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جن میں بعض شدید زخمی ہوئے ہیں۔ دھماکے کے وقت سی سی پی او لاہور امین وینس، ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین اور قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز ایس ایس پی زاہد نواز گوندل جائے وقوعہ کے قریب پولیس نفری کے ہمراہ موجود تھے ۔ ریسکیو حکام کی جانب سے 2 اعلیٰ پولیس افسران سمیت 13 افراد کے شہید ہونے کی تصدیق کی گئی ہے اور 60 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں نے جائے وقوعہ سے مشکوک شخص کو حراست میں لے لیا ہے جسے تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
لاہور میں بم دھماکے میں اتنی بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کازیاں ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ دھماکا اچانک نہیں ہوا بلکہ انتظامیہ کو اس حوالے سے پہلے ہی متنبہ کیاجاچکاتھا اور انٹیلی جنس اداروں نے اس بات کی نشاندہی کردی تھی کہ دہشت گرد کسی بھی وقت لاہور کے کسی مقام کو نشانہ بناسکتے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق خود پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے بھی کی ہے۔ انھوں نے لاہور میں خودکش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور خود کش جیکٹ پہن کر آیا اور سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں اندر داخل ہوا۔رانا ثنااللہ نے کہا کہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے قریب خودکش حملے کی اطلاعات تھیں اور یہ خطرہ پہلے سے موجود تھا، جس علاقے میں دھماکا ہوا وہاں عام حالات میں بھی سیکورٹی زیادہ ہوتی ہے اور سیکورٹی کے خاص انتظامات کیے گئے تھے کیونکہ اس علاقے میں پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی وجہ سے خودکش حملے کی اطلاعات تھیں۔
اگر رانا ثنا اللہ کا یہ استدلال درست تسلیم کرلیاجائے کہ لاہور پولیس نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس افسران کو اس طرح کے دھماکے کی پہلے سے اطلاع تھی اورانٹیلی جنس ادارے اس بات کی نشاندہی بھی کرچکے تھے کہ دھماکا پنجاب اسمبلی کے قرب وجوار میں کیے جانے کااندیشہ ہے تو ایسے حساس مقام پر کسی کو جمع ہونے اوردھرنا دینے کی اجازت کیوں دی گئی،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین کو متنبہ کیوں نہیں کیا کہ وہ جس جگہ مظاہرہ کرنے کاارادہ رکھتے ہیں وہ مخدوش ہے اور ان کے مظاہرے کے نتیجے میں کوئی بھی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوسکتی ہے،اگر پولیس اور قانون نافذکرنے والے ادارے مظاہرین کو قبل از وقت ہی خطرے سے آگاہ کردیتے تو ہوسکتاہے کہ مظاہرین یا تو اپنا ارادہ تبدیل کردیتے یا مظاہرے کیلئے کسی اور جگہ کا انتخاب کرتے۔ اس طرح اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانوں کے زیاں کا خطرہ نہ رہتا۔پنجاب کے وزیر قانون کا یہ کہنا اپنی جگہ درست معلوم ہوتاہے کہ جن لوگوں نے دھماکا کیا وہ ایک ہی گروہ کے لوگ ہیںجو ملک بھر میں ایک ہی گروپ دہشت گردی کررہا ہے اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے مختلف لوگوں کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے لیکن یہاںپھر یہی سوال پیداہوتاہے کہ پنجاب کی حکومت پیشگی اطلاع کے باوجود اس سانحہ کی روک تھام کیلئے موثر کارروائی کرنے میں کیوں ناکام رہی اور ہماری وفاقی وزارت داخلہ بالخصوص وزیر داخلہ نے ان اطلاعات کے باوجود اس خطرے کے سدباب کیلئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ آخر وہ کون سی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے ہماری وزارت داخلہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کرنے سے گریزاں ہے اور کیاوجہ ہے کہ خود وزارت داخلہ کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے ارکان کھلے عام جلسے کرتے ، اور ریلیاں نکالتے پھر رہے ہیں اور ملک کے گوشے گوشے میں دندنارہے ہیں۔ آخر ان کو نکیل ڈالنے سے گریز کیوں کیاجارہاہے؟ اگر وزارت داخلہ اپنے فرائض پوری طرح انجام دیتی اور نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کو کام کرنے سے روک دیاجاتا توشاید لاہور کے شہریوں کو اتنی لاشیں نہ اٹھانا پڑتیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور میں ہونے والا یہ خود کش دھماکا ہماری حکومت بالخصوص وزیر داخلہ کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہونا چاہئے اور وزیر داخلہ کو دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور دہشت گرد بھاگ رہے ہیں اور انھیں اب کہیں جائے پناہ نہیں مل سکے گی جیسے بیانات دے کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے دہشت گردوں کی ممکنہ کمین گاہوں اور ان کے سہولت کاروں کاپتہ چلا کر کسی امتیاز کے بغیر انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس اہم کام کی تکمیل کیلئے پاک فوج ، انٹیلی جنس اداروں ،پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر مشترکہ اور موثر حکمت عملی واضح کرنے پر توجہ دینی چاہئے جب تک سیاست اور ذاتی پسند وناپسند سے بالاتر ہوکر دہشت گردوں کی بیخ کنی کیلئے بے رحمی کے ساتھ اقدامات نہیں کیے جاتے ملک کو اس ناسور سے نجات دلانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔