16ہزاربرطرف سرکاری ملازمین بحال ،سپریم کورٹ کاتاریخی فیصلہ
شیئر کریں
ایک سے سات تک کے ملازمین فوری بحال ، گریڈ 8 سے اوپر والوں کو محکمانہ ٹیسٹ پاس کرنا ہوگا، نااہلی، کرپشن اور غیر حاضری پر برطرف ملازمین بحال نہیں ہوں گے، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ،نظرثانی اپیلیں خارج پارلیمان سپریم ہے،قانون ساز کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے،جسٹس منصور علی شاہ ،معزز عدالت نے سرکاری ملازمین کو اسی تاریخ سے بحال کرنے کا کہا ہے جس سے انہیں برخاست کیا گیا تھا، وکیل اسلام آباد(بیورورپورٹ)سپریم کورٹ نے 16 ہزار سے زائد ملازمین کی برطرفی کے خلاف نظرثانی اپیلیں خارج کر دیں تاہم عدالت نے آئین کے آرٹیکل184-3اور آرٹیکل 187کے تحت اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے تمام16ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرفی کی تاریخ سے بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ گریڈ 8 سے 16 تک کے ملازمین محکمانہ ٹیسٹ و انٹرویو دیں گے ،عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ جتنا عرصہ ملازمین برطرف رہے وہ عرصہ چھٹی تصور کیا جائے گا۔ عدالت نے فیصلہ چار ، ایک کے تناسب سے جاری کیا ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے لارجر بینچ کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ عدالت کی جانب سے مختصر فیصلہ جاری کیاگیا ہے جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت اور16ہزارسے برطرف شدہ ملازمین نے 17اگست2021کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںجسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے وفاقی حکومت اور برطرف شدہ ملازمیں کی جانب سے146دائر درخواستوں پر متعدد ہفتے سماعت کی اور جمعہ کے روز اپنا مختصر فیصلہ سنایا۔ جسٹس عمر عطابندیا ل نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ عدالت نے1996سے1999تک تمام برطرف شدہ ملازمین کو بحال کردیا ہے،عدالت نے کہا ہے کہ ان ملازمین کو بحال کیا جائے جن کے لیے ٹیسٹ یا انٹرویوز ضروری نہیں تھے، گریڈ 8 سے 16 تک کے جن ملازمین کے لیے ٹیسٹ انٹرویو درکار تھے وہ اب دیں گے تاہم عدالت نے قراردیا ہے کہ مس کنڈکٹ اورکرپشن پر نکالے گئے ملازمین بحال نہیں ہوں گے ۔ عدالت نے ملازمین کی بحالی کے حوالہ سے2010کا قانون آئین سے متصادم قراردیا ہے۔ عدالت نے ملازمین کی بحالی کے حوالہ سے 2010کے قانون کو کالعدم قراردینے کا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ برقراررکھا ہے۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان نے 2010کے ملازمین کے بحال کرنے کے قانون کو کالعدم قراردیتے ہوئے 16ہزار سے زائد ملازمین کو برطرف کردیا تھا۔ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ آئین کا ایک تقدس ہے جس کے تحفظ کی ذمہ داری ہم پر ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دے سکتے جو آئین اور قانون سے متصادم ہو۔ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ملازمین کے مسائل ایک انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے، حکومت انسانی پہلو سے متعلق جو ریلیف دینا چاہے اسے اختیارہے۔ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ یقینی بنائیں گے کہ کوئی چوردروازے سے سرکاری اداروں میں داخل نہ ہو، کسی نااہل شخص کو سرکاری ملازمت کا اہل قرارنہیں دیا جاسکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں نظرثانی اپیلیں منظور کرلیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق 4 آئین سے متصادم ہے، مضبوط جمہوری نظام میں پارلیمان ہی سپریم ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سیکشن 4اور سیکشن 10 آئین سے متصادم ہے جس کا جائزہ لینا چاہیئے۔فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے وکیل نے عدالتی فیصلے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ معزز عدالت نے سرکاری ملازمین کو اسی تاریخ سے بحال کرنے کا کہا ہے جس سے انہیں برخاست کیا گیا تھا۔سرکاری ملازمین کے وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ معزز عدالت نے 16 ہزار ملازمین کو بحال کر کے ایک بڑا انسانی المیہ رونما ہونے سے بچا لیا ہے، یہ ان سب لوگوں کی کامیابی ہے جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں صبر اور ہمت سے کام لیا۔