نسلہ ٹاؤ رکے خلاف عدالتی فیصلے کو سیاسی رنگ دینے کی منظم مہم
شیئر کریں
(رپورٹ: باسط علی)نسلہ ٹاؤر کو منہدم کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف ایک منظم مہم جاری ہے،مخصوص عناصر کی جانب سے اِسے سیاسی رنگ بھی دیا جارہا ہے۔ کراچی کو عمارتوں کے جنگل میں بدل دینے والی بلڈر مافیا اور اُن کی سرپرست سیاسی قوتیں نسلہ ٹاؤر پر جائز عدالتی فیصلے کو مختلف بہانوں ،حیلوں اور ذریعوں سے نشانا بنارہی ہیں۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں علاقائی عصبیتیں بھی بیدار کی جارہی ہیں۔ کراچی کی سیاسی جماعتوں کے انتہائی متعصبانہ بیانات کے باوجود سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کراچی دشمنی میں نہیں بلکہ کراچی کے دورس بہترین مفادات میں ہے۔ انتہائی سنجیدہ کراچی کے باشندے کراچی کو عمارتوں کے جنگل میں تبدیل کیے جانے سے پہلے ہی ناخوش ہیں۔ پھر بلڈر مافیا کے ظلم کا عرصے سے شکار ہے۔ مگر نسلہ ٹاؤر کے انہدام کے خلاف اُٹھائی گئی آوازوں کے پیچھے بلڈر مافیا کے وہی اہم بدعنوان ترین لوگ ہیں جو نسلہ ٹاؤر کے انہدام کے ساتھ اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر ایک عمارت گری تو پھر کراچی میں غیرقانونی دیگر عمارتوں کو بھی گرانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ درحقیقت نسلہ ٹاؤر کے آس پاس دو اور ہائی رائز عمارتوں 81پلازہ اور زہرہ اپارٹمنٹس کے حوالے سے بھی اسی نوع کی قانونی خلاف ورزیاں موجود ہیں۔ جو نسلہ ٹاؤر کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے عدالت میں چیلنج کی جاسکتی ہیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسی عمارت کے خلاف ہے جو سڑک کنارے تعمیر کی گئی ، جس کے لیے کوئی بھی اتھارٹی این او سی دے توبھی وہ ازخود غلط قرار پائے گی۔ کیونکہ قانون کے مطابق رفاعی پلاٹ تبدیل ہی نہیںکیا جاسکتا۔ جبکہ سڑک کے لیے مختص نسلہ ٹاؤر کی عمارت کراچی کی سب سے مصروف شاہراہ پر قائم ہے۔بدقسمتی سے پروپیگنڈے کی دھول میں قانونی نکات اوجھل کردیے گئے ۔ کسی بھی عمارت کے جائز اور ناجائز ہونے کا فیصلہ صرف پلاٹ کے جائز اور ناجائز ہونے کی بنیاد پر ہی نہیں کیا جاتا۔ بلکہ یہ بھی جانچا جاتا ہے کہ کیا مذکورہ بلڈنگ منظور شدہ پلان کے مطابق بنی ہے یا نہیں؟ نسلہ ٹاؤر کی عمارت میں بھی ایسی متعدد خلاف ورزیاںموجود ہیں جو منظور شدہ پلان کے مطابق نہیں۔ چونکہ عمار ت کو گرانے کا عدالتی فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے ، لہذا اس کی تفصیلات یہاں بیان نہیں کی جارہی۔ درحقیقت نسلہ ٹاؤر کی عمارت کو گرانے کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کے پیچھے یہ حقیقت ہے کہ بلڈر مافیا ایک طویل عرصے سے شہر میں موجود ایک ’’سسٹم‘‘ (جس کے متعلق تفصیلات آئندہ اشاعتوں میں قسط وار دی جارہی ہیں) کے ذریعے کراچی کی زمینوں پر قبضے اور ناجائز عمارتوں کا ایک جنگل اُگا چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے نے سب کچھ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق شاہراہ قائدین اور خالد بن ولید روڈ پر قائم اکثر عمارتیں ان ہی خلاف ورزیوں کے باعث عدالت میںکسی بھی وقت چیلنج ہو کر زمیں بوس ہوسکتی ہیں۔ بلڈر مافیا اس کھاتے کے کھلنے سے بچنا چاہتی ہے۔ چنانچہ آخری چارۂ کار کے طور پر سارے کھیل نسلہ ٹاؤر کی عمارت کے پیچھے کھیلے جارہے ہیں۔ اس معاملے میں سندھ حکومت، بلڈر مافیااور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ذرائع ابلاغ کا ایک منفعت بخش تعلق، گھناؤنے انداز سے موجود ہے۔