میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعظم غلط چیز پر جاہلانہ انداز میں کھڑے ہیں، مولانا فضل الرحمن

وزیراعظم غلط چیز پر جاہلانہ انداز میں کھڑے ہیں، مولانا فضل الرحمن

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۴ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل، آرمی چیف کے حکم کا پابند ہے، وزیراعظم غلط چیز پر جاہلانہ انداز میں کھڑے ہیں، ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر میں وزیر اعظم کا اختیار حسن کی حد تک ہے اور ہمارے ملک کے منظم ادارے کو جو نقصان ان چند دنوں میں وزیراعظم نے پہنچایا ہے، پاکستان کے دشمن بھی اس ادارے کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے، موجودہ حکمران پاکستان کو ڈبونے آئے ہیں، ہر ادارے کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے ۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان یقیناً ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں اور ڈاکٹر صاحب ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو اپنا مشن پورا کرکے دنیا سے گئے ہیں اور انہوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو بہت کچھ دیا ہے، اللہ رب العزت ان کی خدمات کو اپنے دربار میں قبول فرمائے۔ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر پر جاری کشمکش کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ لمحہ با لمحہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، ہمیں فکر اس بات کی ہے کہ پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ہمارے ملک میں فوج ایک واحد منظم ادارہ ہے جو عوام کی آخری امید ہوا کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ ملک کے حکمران نے جہاں پورے ملک کو برباد کیا ہے، معاشی لحاظ سے برباد کیا ہے، عام آدمی کراہ رہا ہے، اسی طرح ہمارے ملک کے منظم ادارے کو جو نقصان ان چند دنوں میں اس نے پہنچایا ہے شاید پاکستان کو دشمن اس ادارے کو اتنا نقصان نہ پہنچا سکے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ صورتحال بہتر ہو جائے اور ملک بہتری کی طرف جائے تاہم ہر ادارے کو اب یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ یہ حکمران پاکستان کو ڈبونے کے لیے آئے ہیں اور پاکستان کو ترقی دینے کے لیے نہیں آئے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ ڈی جی آئی ایس آئی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرر کا ہے، لیفٹیننٹ جنرل براہ راست چیف آف آرمی اسٹاف کے ماتحت ہے اور اس کی خدمات اور تعین اس کے باس نے کرنا ہوتا ہے یہاں چونکہ آئی ایس آئی کے حوالے سے کوئی ایکٹ موجود نہیں ہے اور ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بعض دفعہ ہم اس کو کہتے ہیں کہ یہ حسن کی حد تک ہے، یہ اختیار اس حد تک نہیں کہ کوئی اس پر ڈٹ جائے اور کہے کہ میں سمری پر دستخط نہیں کروں گا، میں نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتا۔جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ جس طرح صدارتی طرز حکمرانی میں فیصلے پارلیمنٹ کرتی ہے، ایگزیکٹو چیف وزیر اعظم ہوتا ہے لیکن حسن کے لیے فائنل ایوان صدر بھی جاتی ہے اور صدر کے بھی اس پر دستخط آ جاتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں