میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سلیم شہزاد داغ دھونے پہنچ گئے

سلیم شہزاد داغ دھونے پہنچ گئے

ویب ڈیسک
منگل, ۷ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی کی سیاست میں ایک اور اہم کردار کی انٹری
سلیم شہزاد پولیس کو بارہ مقدمات میں مطلوب ‘گرفتاری جعلی شناختی کارڈ و پاسپورٹ پر ملک سے فرارپر ہوئی
ان پر ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں دہشت گردوں کے علاج کرانے میں معاونت کا الزام بھی ہے
وحید ملک
متحدہ قومی موومنٹ کے جلا وطن رہنما سلیم شہزاد کو پیر کی صبح وطن واپسی پر کراچی ائیرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا۔ کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے گرفتاری کی تصدیق کی۔ڈپٹی ڈائریکٹر امیگریشن عاصم قائم خانی نے میڈیا کو بتایا کہ سلیم شہزاد پیر کی صبح برطانوی پاسپورٹ پر وطن واپس آئے تو ان کے سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی تاہم امیگریشن کے فوری بعد انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ایس ایس پی ملیر راو انوار نے سلیم شہزاد کو حراست میں لیا اور بکتر بند گاڑی میں بیٹھا کر انہیں ائیرپورٹ کی حدود سے باہر لے گئے۔سلیم شہزاد پولیس کو بارہ مقدمات میں مطلوب ہیں تاہم انہیں جس مقدمے میں گرفتار کیا گیا وہ جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر وطن سے فرار ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر امیگریشن عاصم قائم خانی کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس سے سلیم شہزاد کی کلیئرنس مانگی گئی تھی تاہم انہیں کلیئرنس نہ مل سکی۔سلیم شہزاد، ڈاکٹر عاصم حسین کیس کی تفتیش کے سلسلے میں بھی پولیس کو مطلوب ہیں، ان پر الزام ہے کہ وہ دہشت گردوں کے علاج کرانے میں معاونت فراہم کرتے رہے تھے۔ادھر سلیم شہزاد نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ وہ رضاکارانہ طور پر پاکستان آئے ہیںاورکہا کہ مجھے پرانے ساتھیوں سے لاتعلق ہونے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کروں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کینسر کے مریض ہیں اور کیموتھراپی کرا رہے ہیں۔ایس ایس پی راو¿انوار کے مطابق سلیم شہزاد پرضلع وسطی اور ضلع شرقی کے تھانوں میں بھی مقدمات درج ہیں۔سلیم شہزاد کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ ان کے خلاف مختلف تھانوں میں ایک درجن سے زائد مقدمات ہیں ۔ ان میں ایک اہم مقدمہ ضیا الدین ہسپتال میں دہشتگردوں کے علاج کا ہے جو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چل رہا ہے ۔ عدالت انہیں مفرور قرار دے چکی ہے اور پانچ مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے ۔ سلیم شہزاد نے وطن آنے سے قبل اپنے مقدمات کے سلسلے میں عامر منصوب ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا تھا لیکن عامر منصوب ایڈوکیٹ نے اندورن سندھ جانے کے باعث انکار کر دیا ۔ خواجہ نوید ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سلیم شہزاد نے رابطہ کیا تو ان کے مقدمات کی پیروی کے لیے تیار ہیں ۔متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رہنماو¿ں میں شمار ہونے والے سینئر سیاست دان سلیم شہزاد 25سال کی جلاوطنی ختم کرکے پیر کی صبح دبئی سے کراچی لوٹے تو ایئرپورٹ امیگریشن حکام کے دفتر میں را ﺅانوار نے انہیں گرفتار کرلیا اور سلیم شہزاد کے پاس موجود برطانوی پاسپورٹ اور ان کا موبائل فون بھی ضبط کرلیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کی بنیاد میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے سلیم شہزاد کا شمار ایم کیو ایم کے بانی رہنماﺅں میں ہوتا ہے، وہ گزشتہ تین سال سے غیر فعال تھے، اس وقت ان کے پاس ایم کیو ایم کے کسی دھڑے میں کوئی عہدہ نہیں ہے۔ تاہم اس سے قبل وہ ایم کیو ایم لندن رابطہ کمیٹی کے سرگرم رکن تھے،ان کے پاس برطانوی شہریت اور پاسپورٹ ہے۔گزشتہ برس 22 اگست کو ایم کیو ایم لندن کے بانی الطاف حسین کی جانب سے اشتعال انگیز تقریر اور پاکستان مخالف نعروں پر جہاں متحدہ پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کی،وہیں پارٹی بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، تاہم سلیم شہزاد نے خود کسی دھڑے میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ اس سے قبل 2014میں سلیم شہزاد کی جانب سے جاری سنسنی خیز بیان نے بھی ملکی سیاست میں ہلچل مچائی، سلیم شہزاد نے مارچ 2014میں متحدہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم میں متعدد ایسے عناصر موجود ہیں جو کراچی میں بھتہ خوری، قتل عام اور اسمگلنگ جیسے واقعات میں ملوث ہیں۔سلیم شہزاد کے بغاوتی بیان کے بعد بانی ایم کیو ایم کی جانب سے اسی روز سلیم شہزاد کی پارٹی رکنیت معطل کر دی گئی جو تاحال بحال نہ ہوسکی، انہوں نے 2ماہ قبل 15اکتوبر 2015کو بھی ایک بیان جاری کیا کہ وہ سیاست چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔
16ستمبر2016کو ایک نجی ٹی وی پروگرام میںمتحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما سلیم شہزاد نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم مہذب لوگوں کی جماعت تھی۔ کچھ لوگوں نے پارٹی کارکنوں کو ایسے کاموں پر لگادیا جس سے پارٹی پر دہشت گردی کا لیبل لگ گیا میں بھی اس گناہ میں شامل ہوں اور اس داغ کو دھونا چاہتا ہوں۔
کیا سلیم شہزاد وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں؟
ایم کیو ایم کے بانی رکن سلیم شہزاد کی وطن واپسی اور کراچی ایئرپورٹ پہنچتے ہی گرفتاری کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ کراچی پولیس چیف مشتاق مہر نے بھی سلیم شہزاد کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی ایس پی ایئرپورٹ نے پولیس پارٹی کے ہمراہ امیگریشن کے دفتر جا کر ایم کیو ایم رہنما کو حراست میں لیا، ان پر عائد مقدمات کی چھان بین کر کے انہیں متعلقہ تھانے بھیج دیا جائے گا۔ ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار نے بھی سلیم شہزاد کو تحویل میں لینے کی تصدیق کردی ہے جبکہ ان کا پاسپورٹ تحویل میں لے کر انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔اس وقت ایم کیو ایم کے متعدد دھڑے کام کر رہے ہیںجن میں ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم لندن اور پاک سر زمین پارٹی شامل ہے،یوں تو سلیم شہزاد ایم کیو ایم کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں، مگر وہ اس وقت ایم کیو ایم کے کسی بھی دھڑے کا حصہ نہیں ہیں۔ 90کی دہائی ایم کیو ایم کی سیاست کے لیے کڑا امتحان لے کر آئی اور 1992میں ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی اداروں کا آپریشن شروع ہوا تو کئی دوسرے رہنماو¿ں کی طرح سلیم شہزاد بھی ملک چھوڑ گئے تھے۔مبصرین کا خیال ہے کہ سلیم شہزاد کی واپسی ڈیل کا نتیجہ ہے اور الطاف حسین کے خلاف مزید دبا ﺅڈالنے کے لیے وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔بعض ناقدین کہتے ہیں کہ الطاف حسین ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے ان کے خلاف تمام کیسز ختم کر دئیے ہیںاور حکومت پاکستان کو معلوم ہے کہ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں کارروائی ہو گی نہ اسے پاکستان لایا جا سکتا ہے۔ مبصرین سلیم شہزاد کی وطن واپسی کو انتہائی اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ کراچی کی سیاست میں ان کے آنے سے نئی ہلچل پیدا ہوسکتی ہے۔
”لندن قیادت مجھے عمران فاروق نہ سمجھے“سلیم شہزاد کا انتباہ
16ستمبر2016کو ایک نجی ٹی وی پروگرام میںمتحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما سلیم شہزاد نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم مہذب لوگوں کی جماعت تھی۔ کچھ لوگوں نے پارٹی کارکنوں کو ایسے کاموں پر لگادیا جس سے پارٹی پر دہشت گردی کا لیبل لگ گیا میں بھی اس گناہ میں شامل ہوں اور اس داغ کو دھونا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ22اگست کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے بالکل درست موقف اختیار کیا۔ ایم کیو ایم کا ووٹر بہت کنفیوز ہے۔ میرے پاس بہت سی کالز آرہی ہیں۔ سلیم شہزاد نے کہا کہ فاروق ستار کو چاہئے کہ وہ ایم کیو ایم کے ووٹر کو کنفیوژن سے نکالیں۔ انہوں نے ٹی وی پروگرام میں ایم کیو ایم لندن قیادت کو انتباہ کیا تھاکہ میری طرف دیکھتے ہوئے یا میرے خلاف کچھ کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا کہ ”میں عمران فاروق نہیں میرا نام سلیم شہزاد ہے“۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں