تین سالہ حکومتی کارکردگی
شیئر کریں
جولائی 2018کے انتخابی نتائج کو غیر جانبدارانہ اور صاف شفاف کہیں یا متنازع ، عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں تشکیل پانی والی اتحادی حکومت جیسے بھی سہی تین برس سے کام کر رہی ہے کام کی رفتار کو تیز یاسُست کہیں، حکومت کی تین سالہ کامیابیوں و ناکامیوں پر بحث اور تنقیدہو سکتی ہے آیا منشور پر ہوا یا نہیں اِس پر بھی بات ہو سکتی ہے مگر باوجود کوشش کے حکومت گرانے میں اپوزیشن کامیاب نہیں ہو سکی فنِ خطابت سے تو بظاہر ہمارے وزیرِ اعظم شیخ القرآن اور شیخ الحدیث نظرآتے ہیں خطاب سن کر لگتا ہے کہ انھیں تاریخ ،فلسفے،سیاست ،معیشت،سائیکالوجی،بیالوجی ،فزکس ،کیمسٹری ،لٹریچرغرض تمام علوم پر عبور حاصل ہے مگر جوشِ خطابت میں جاپان اور جرمنی کو بھی ہمسایہ ممالک کہہ جاتے ہیں جوتمام علوم پر عبوراور قابلیت کی حقیقت آشکار کرنے کے لیے کافی ہے جس سے دیگر شعبوں میں بھی کپتان کی کارکردگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ منشور پر عمل کرتے ہوئے اکثر اہداف حاصل کرلیے ہیں لیکن عام آدمی کو درپیش مسائل حل کرنے میں کامران ہیں یا نہیں کارکردگی کے متعلق ماہرین کی غیرجانبدارانہ رائے ہی درست اور مبنی بر حقیقت ہے معمولی سی معاشی و سیاسی بصیرت رکھنے والاشخص بظاہر اہداف حاصل کرنے کے حکومتی دعوے کی تائید نہیںکر سکتا عام آدمی کیا سوچتا ہے بظاہر حکومت اِس حوالے سے لاعلم محسوس ہوتی ہے معاشی ماہرین حکومتی کارکردگی سے کسی طور خوش نہیں خود وزیرِ اعظم بھی اپنی ٹیم کی ناتجربہ کاری کا اعتراف کرتے ہیںپھر بھی لوگ خوشحال ہو رہے کا دعویٰ کیونکر کیا جاتا ہے کیونکہ دستیاب اعدادو شمارخوشحالی کے دعوے کی تائید نہیں کرتے ترسیلاتِ زر میں اضافے کو حکومتی کامیابی نہیں کہہ سکتے جیسے جیسے تارکینِ وطن کی تعداد بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے رقوم بھی زیادہ آرہی ہیں جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے وہ تو ہرکام پر تنقید اورحکومت کو ناکام کہتی ہے خیر ایسا کہناتو ہر دور میں اپوزیشن کا وطیرہ رہا ہے مگرآج ملک کے حالات یہ ہیں کہ مزاحمت کرنی ہے یا مفاہمت کی روش پر چلنا ہے اپوزیشن قیادت کو سمجھ نہیں آرہی اپوزیشن انتشار کا شکار اور پی ڈی ایم پر جانکنی کا عالم ہے ویسے بھی حکومت و اپوزیشن میںکسی نُکتے پر اتفاق نہیں لہذا کارکردگی کی بابت بات وہی مبنی بر حقیقت ہوگی جس کی ماہرین اور عوامی حلقے تائید کریں۔
حکومتی کامیابیوں کا ذکر کریں توسب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہچکولوں اور تھپیڑوں کے باوجود تین برس گزار لیے ہیں وگرنہ آغاز میں تو یہ حال تھا کہ آج گئی یا کل گئی والی بات تھی اقتدار میں موجود رہنے کی بڑی وجہ سویلین و عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونا ہے کیونکہ اپوزیشن تو ایک طرف اتحادی بھی حکومت سے خوش نہیں ایم کیوایم اور ق لیگ بمشکل ساتھ مگر اختر مینگل راہیں جدا کرچکے ہیں اگر منشورکے حوالے سے جائزہ لیں توکوئی خوش کن تصویر نظر نہیں آتی عوام کی کیا بات کریں اتحادیوں سے کیے وعدے ہنوز تشنہ تکمیل ہیں میرے خیال میں تین برس گزارنے کے سوا مزید کسی بڑی کامیابی کا تذکرہ سہل نہیں کیونکہ کامیابی جاننے کا پیمانہ عوام کو ملنے والا ریلیف ہوتا ہے سستی چیزیں دینے کے وعدے پرآج تک عمل نہیں ہوا،مہنگائی میں مسلسل ہوشربا اضافہ،آٹے و چینی کے بحران،مارکیٹ سے حکومتی نرخوں پر اشیائے ضروریہ کا دستیاب نہ ہونا نیزپیٹرولیم ،ایل پی جی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی روشنی میں کامیابی تلاش نہیں کی جا سکتی ملک میں غربت و بے روزگاری بڑھی ہے ایک طرف آمدن کے ذرائع کم ہونے سے عام آدمی کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے دوسری طرف گرانی نے زندگی مزید مشکل بنادی ہے کرونا وبا نے کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں متاثر کی ہیں لیکن اِس سے پہلے بھی معاشی بہتری نہ لائی جا سکی۔
عمران خان نے بڑے طمطراق سے لُٹیروں کو جیلوںمیں ڈال کر لوٹا مال واپس لیکر خزانے میں جمع کرانے کا وعدہ کیا تھااِس آڑ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اکابرین پابندِ سلاسل ضرور ہوئے لیکن ماسوائے چند ایک کے اکثریت ضمانتوں پر رہا ہو چکی ہے مگر اربوں ڈالر کی وصولی میںکامیابی نہیں ہوئی اصلاحات کا وعدہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہو اجس کی وجہ سے انصاف اور احتساب کے نظام میں موجود خرابیاں کم نہیں ہو سکیں موجودہ دورکے گزشتہ تین برسوں میں عوام کو جتنے بحرانوں کا سامنا رہا وہ الگ ریکارڈ ہے پیٹرول ،چینی اور آٹے کی قلت سے لوگ پریشان رہے کبھی لوگ گرانی کے خلاف شور مچاتے تھے لیکن تحریکِ انصاف کی حکومت نے عوام کو وہ دن بھی دکھائے کہ لوگ خریداری کے لیے رقوم لیکر نکلتے لیکن ناکام رہتے طرفہ تماشہ یہ کہ حکمران جس چیز کا نوٹس لیتے وہ چیز ہی بازار سے ناپید ہوجاتی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں اب بھی مختلف قسم کے مافیا کاراج ہے اور اُن کا زورتوڑا نہیں جا سکااسی لیے وہ آٹے ،چینی ،پیٹرول جیسے بحران پیداکرنے پر قادر ہیںجو حکومتی رَٹ کی کمزوری ہے اِس میں ابہام نہیں کہ ملک خوراک میں خود کفیل نہیں رہا چاہیے تو یہ تھا کہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے زرعی رقبہ اور پیداوار بڑھانے پر توجہ دی جاتی اُلٹاحکومت نے ہائوسنگ کالونیوں کی حوصلہ افزائی شروع کر دی ہے جس سے اضافہ تو ایک طرف نہ صرف موجودہ زرعی رقبہ بھی کم ہورہا ہے بلکہ ٹڈی دل ودیگر موسمی وبائیںپیداوار پر اثر انداز ہورہی ہیں جس کی بنا پر زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم وچینی بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں یہ ایسی ناکامی ہے جو معیشت کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہے ۔
اہم سرکاری عمارات کو تعلیمی اِداروں میں بدلا نہیں جا سکا نہ ہی حکمرانوں کے اطوار سے سادگی جھلکتی ہے وزیرِ اعظم لاکھوں کی تنخواہ اور دیگر مراعات کے باوجود پریشان ہیں مگر چند ہزارماہانہ آمدن والاعام آدمی کیسے گزر بسر کرتا ہے شاید وہ لاعلم ہیں۔ آج بھی ملک کوبجٹ خسارے کا سامنا ہے گردشی قرضہ کھربوں میں پہنچ چکا ہے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بلدیاتی اِدارے غیر فعال ہیں امن وامان کی صورتحال بھی خراب ہونے لگی ہے داسو ڈیم ،لاہور ،گوادر،کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں درجنوں اموات ہو چکی ہیں داسو ڈیم حملے سے پاک چین تعلقات میں سرد مہری آئی ہے سفارتی حلقوں میں یہ افواہ گردش کر رہی ہے کہ چینی حکومت نے آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی نہ کرانے کی صورت میں منصوبوں پر جاری کام روکنے کا انتباہ دیا ہے ملک کے 75ویں یومِ آزادی کی شام کراچی میں بلدیہ ٹائون کے علاقے میں بارہ سے زائد افراد لقمہ اجل بنناخرابی امن کی جانب اشارہ ہے ۔
خارجی حوالے سے حماقتوں کی الگ داستان ہے کبھی ملائشیا ،ترکی اور ایران سے مل کر اوآئی سے کے مقابل تنظیم بنانے کی بات کی اور جب مہمان ملائشیا پہنچنے لگے تو عین موقع پر سعودی عرب کی طرف سے ناراضگی دکھانے پر شریک ہونے سے انکار کر دیا کبھی نریندر مودی کی طرف سے ٹیلیفون نہ اُٹھانے پرمایوسی ظاہرکی تو کبھی جوبائیڈن کی طرف سے ٹیلیفون نہ کرنے کا شکوہ کیا سفارتی آداب کے منافی ایسی حرکتوں سے ملک کی عالمی سطح پرنہ صرف سُبکی ہوئی بلکہ عوامی حلقوں میں مایوسی نے جنم لیا یورپی یونین کی طرف سے پاکستانی برآمدات پر پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد بھاری اکثریت
سے منظور کی گئی لیکن پاکستان نے سفارتی سطح پر اقدامات کرنے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا علاوہ ازیں پہلی بار پاکستانی ائر لائن پی آئی اے کا طیارہ ملائشیا میں ضبط کرنے کا انوکھا کام بھی ہواپھر بھی کوئی حکومتی کامیابی ہے تو حکومتی حلقے رہنمائی فرمادیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔