خاندانی اقدار کی طرف واپسی
شیئر کریں
پال کرگمین
1992ء میں امریکی سیاست کچھ ہفتوں کے لیے ’’خاندانی اقدار‘‘ کے گرد گھومتی رہی۔ صدر جارج بش سینئر کمزور معیشت اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی وجہ سے انتخابی جھمیلوں میں الجھے ہوئے تھے؛ چنانچہ ان کے نائب صدر ڈین کوئیل نے ایک ٹی وی کریکٹر مرفی برائون پر تنقیدکر کے موضوع کو بدلنے کی کوشش کی جو شادی کے حق میں نہیں تھی۔ مجھے یہ بات اس لیے یاد آئی جب میں نے Hillbilly Elegy کے مصنف جے ڈی وینس کے ریمارکس پڑھے جو آج کل اوہایو سے ریپبلکن پارٹی کی طرف سے سینیٹ کے امیدوار ہیں۔ وینس نے یہ بات نوٹ کی کہ بعض ڈیموکریٹس ارکان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور اس نے ان کے لاولد ہونے پر سخت تنقید کی۔ اس نے ہنگری کے صدر وکٹر آربن کی بہت تعریف کی کہ ان کی حکومت نے ایسے جوڑوں کو سبسڈی کی سہولت دے رکھی ہے جن کے ہاں بچے ہیں۔ اس نے یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ یہ سب کچھ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
واشنگٹن پوسٹ کے ڈیو ویگل نے نشاندہی کی ہے کہ یہ بات اس لیے نامناسب تھی کہ وینس نے صدر جو بائیڈن کی طرف سے دیے گئے چائلڈ ٹیکس کریڈٹ کا ذکر نہیں کیا جس سے کثیر تعداد میں غریب عیال دار والدین کو بہت فائدہ حاصل ہو گا۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ اس نے بچوں کے لیے بہتر پالیسیاں متعارف کرانے والے دیگر یورپی ممالک کے بجائے ہنگری کی پالیسی کی تعریف کی۔ خاص طور فرانس کی حکومت بچوں والے خاندانوں کو کثیر مالی امداد فراہم کرتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں فرانس کی شرح پیدائش سب سے زیادہ بھی ہے لہٰذا وینس نے ہنگری کی ایک جابر اور آمر حکومت کی تعریف کیوں کی جو سفید فام قوم پرستی کے رجحانات رکھتی ہے۔یہ ایک جذباتی قسم کا سوال ہے۔ میں بھی اس امر کی نشاندہی کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب میں نے اس ویک اینڈ پر اس طرح کے ایشوز کے بارے میں ٹویٹ کیا تھا جس میں میرا خاص طور پر بچوں سے متعلق پالیسیوں کے ضمن میں معاشی کمزوریوں پر فوکس تھا تو وینس نے ایک میچور اور ٹھوس ردعمل دیتے ہوئے مجھے ’’بلیوں کی شوقین عورت‘‘ سے تشبیہ دی۔ مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ خاندان کو فروغ دینے والی ٹھوس پالیسیوں کے بجائے ’’خاندانی اقدار‘‘ پر سارا فوکس کرنے کا نتیجہ محض ایک ’’ناکارہ انٹلکچول کارتوس‘‘ کی صور ت میں نکلا۔
بلاشبہ ڈین کوئیل ایک دانشور نہیں تھے۔ انہوں نے اس مزاحیہ جرم کا ارتکاب اس وقت کیا جب گرٹروڈ حملفارب جیسے قدامت پسند دانشور مسلسل یہ دلائل دے رہے تھے کہ روایتی اقدار خاص طور پر خاندانی سٹرکچر کا زوال ہی ہمارے سماج کی تباہی کا باعث بنا ہے۔ عام طور پر یہ دلیل دی گئی کہ وکٹورین اقدار کا زوال ہی جرائم اور مشکلات سے بھرپور مستقبل کی صورت میں منتج ہوا؛ چنانچہ ہماری سوسائٹی زوال پذیر ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ یہ بات درست ہے کہ غیر شادی شدہ خواتین کے ہاں بچوں کی پیدا ئش میں قدرے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر خاندانی اقدار کے بارے میں شدید احساس اس وقت بیدار ہوا جب دوسری طرف پْرتشدد جرائم کی شرح میں بھی خاصی کمی رونما ہوئی۔ اس کے بعد خاص طور پر بڑے شہر زیادہ محفوظ نظر آنے لگے۔ 2010ء میں نیویارک میں قتل جیسے جرم کی شرح واپس 1950ء والی سطح پر آگئی تھی۔ البتہ کووڈ کے دنوں میں مجموعی جرائم میں تو نہیں مگر قتل کی ورداتوں میں اضافہ ہوا۔ کوئی بھی یہ بات یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ بالکل ویسے ہی جس طرح کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ جرائم کی شرح میں کمی کیونکر ہوئی تھی؛ تاہم ہمیں یہ پہلو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ کووڈ کے دوران ہمارے سماج میں اور بھی بہت کچھ غلط ہوا۔ مثال کے طور پر ان دنوں میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی؛ اگرچہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ شاید زبردستی کی تنہائی یا آئسولیشن سے سوسائٹی کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا مگر اس بات کا خاندانی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔یہ پہلو بھی اہم ہے کہ امریکا کے مقابلے میں بعض یورپی ممالک میں روایتی خاندانی نظام کو شدید دھچکا لگا۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ فرانس اپنی شرح پیدائش میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہا مگر بچوں کی زیادہ تر پیدائش غیر شادی شدہ خواتین کے ہاں ہوئی؛ تاہم امریکا کے برعکس فرانس میں سماجی توڑ پھوڑ اس نوعیت کی نہیں ہے۔ فرانس میں انسانوں کے قتل کی شرح امریکا کے مقابلے میں سات گنا کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یاسیت کے شکار لوگوں کی شرح اموات میں سنگین اضافہ ہوا ہے یعنی منشیات اور خودکشی سے ہونے والی اموات کہیں زیادہ بڑ ھ گئی ہیں مگر اس بنا پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے ہماری روایتی اقدار میں زوال کی عکاسی ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ہم 10 ریاستوں کے حالات پر نظر دوڑائیں جو ہماری روایتی اقدار اور مذہبیت کی عکاسی کرتی ہیں تو ان میں سے 7 ریاستوں میں مایوسی کے شکار لوگوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے دیہات اور چھوٹے قصبات میں مایوسی پھیلنے کی شرح زیادہ ہے کیونکہ معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع چھوٹے مقامات سے زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور میٹرو پولیٹن علاقوں کی طرف شفٹ ہو گئے ہیں۔
یہی میرا سب سے اہم اور آخری نکتہ ہے۔ جب ہمارے سیاستدان ہماری اقدار پر شور مچاتے ہیں یا لوگوں کی ذاتی چوائس پر تنقید کرتے ہیں تو یہ رویہ عام طور پر اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنانے کے اہل نہیں ہیں یا دینا نہیں چاہتے جن کی بدولت ایک عام امریکی شہری کی زندگی میں بہتری ا?نے کا امکان پیدا ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی سوسائٹی میں بہتری لانے کے لیے ہم بہت سے کام کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کام بہر صورت کرنے بھی چاہئیں۔ جن خاندانوں کے ہاں زیادہ بچے ہیں ان کی زیادہ مد د کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کاموں میں سر فہرست ان کی مالی مدد، بہتر ہیلتھ کیئر اور ڈے کیئر سنٹرز تک رسائی شامل ہیں۔ میرا یہ بات کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمیں زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے بلکہ ان بچوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنا چاہئے تاکہ وہ ایک صحت مند اور تعمیری شہری کے طور پر پروان چڑھ سکیں۔ دوسری طرف اشرافیہ کی ذاتی زندگی کے فیصلوں پر چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اور جب یہ سب کچھ کوئی سیاستدان کرتا ہے تواس سے ہمارے شعوری اور اخلاقی دیوالیہ پن کی عکاسی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔