بلوچستان اسمبلی تصادم، ذمہ دار کون؟
شیئر کریں
بلوچستان اسمبلی کا احاطہ اور راہداریاں آخر کار میدان جنگ میں تبدیل ہو ہی گئیں۔ 18 جون کو صوبائی بجٹ والے دن دیر تک پولیس، اسمبلی سیکیورٹی اور حزب اختلاف کے اراکین اور ان کے وابستگان کے درمیان تصادم جاری رہا۔ حزب اختلاف نے اپنے اعلان کے تحت اسمبلی کے دروازوں کو تالے لگاکر بند کردیا تھا۔ مقصد حکومتی ارکان اور وزیراعلیٰ کو اسمبلی میں داخل نہ ہونے دینا تھا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ پولیس نے بکتر بند گاڑی کے ذریعے گیٹ کو توڑ کر راستہ بنالیا، یہ انتہائی خطرناک عمل تھا، گیٹ کے اس جانب حزب اختلاف کے اراکین احتجاج پر اکٹھے تھے، گیٹ گرنے سے رکن اسمبلی عبدالواحد صدیقی کا بازو فریکچر ہوا، بابو رحیم مینگل اور رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار بھی زخمی ہوئیں، دوسرے ضعیف العمر اراکین جیسے نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈووکیٹ بھی اس موقع پر وہاں موجود تھے، اللہ نے کرم کیا وگرنہ جانی ضیاع کا پورا امکان موجود تھا۔حزب اختلاف کے اراکین دیر تک مشتعل رہے، پولیس پر اسمبلی کے گملوں کے وار کرتے رہے، وزیراعلیٰ جام کمال پر بوتل اور جوتے کا وار کیا، بہرحال بدمزہ ماحول کے اندر اسمبلی اجلاس بہت تاخیر سے شروع ہوا۔ وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے بجٹ 22-2021ء پیش کردیا، حکومت نے 19جون کو حزب اختلاف کے 17 اراکین کیخلاف اقدام قتل، کار سرکار میں مداخلت، پولیس اہلکاروں پر حملے سمیت 17 دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ادھر حزب اختلاف کے اراکین نے بجٹ سیشن میں عدم شرکت کا فیصلہ کرلیا، ساتھ حکومت مخالف تحریک کا اعلان بھی کردیا۔ مقدمے میں نامزد 15 ارکان 21 جون کو خود گرفتاری دینے بجلی روڈ تھانے پہنچ گئے۔ پولیس نے حکومت کیخلاف مقدمہ درج نہیں کیا، حزب اختلاف نے عدالتوں سے رجوع کا اعلان کیا ہے۔حزب اختلاف اور حکومتی بینچوں کے اراکان دونوں کہتے ہیں کہ اس روز صوبے کی روایات و اقدار کی پامالی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ پامالی کب نہیں ہوئی، یہاں تو ہر اسمبلی کے اندر بارہا بہت کچھ ہوا، وہ اسمبلیاں جو اوروں کی انگلیوں پر چلتی اْچھلتی ہوں، کو روایات، اصول و اقدار سے کیا؟۔ یعنی جملہ جماعتوں نے برائیوں میں حصہ ڈالا ہے۔ حزب اختلاف سے غیر شائستہ عمل سرزد ہوا ہے، تو حکومت بھی تہذیب و شائستگی کا مظہر نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے الزامات اگر درست نہیں، تو حکومت بھی پوری صادق و راست نہیں ہے۔گویا 18 جون کے تماشے سے حکومت بری الذمہ نہیں ہے، حکومت ہی کی روش سے اس روز کا سانحہ پیش آیا ہے۔
حزب اختلاف کی ریکوزیشن پر 14 جون کو اجلاس طلب کیا گیا تھا، جس میں حکومتی بینچوں سے ایک بھی رکن اسمبلی شریک نہ ہوا، اگلے دن حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی نے باہر احتجاجی کیمپ لگا دیا۔ اجلاس سے ایک روز قبل صوبے کے بیشتر اضلاع میں حزب اختلاف کی اپیل پر احتجاج ہوا، قومی شاہراہیں بند کی گئیں مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بات چیت اور معاملہ فہمی اور بنانے کے لیے سرے سے قدم ہی نہ اٹھایا گیا۔ حالانکہ ایسے معاملات، مسلسل روابط اور گفتگو کے ذریعے آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔اگر حکومتی اراکین بشمول وزیراعلیٰ کے سیاسی، قبائلی اور علاقائی رقابتیں حائل نہ ہوں تو حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنا کسی طور مشکل و ناممکن نہیں ہے، حکومت نے اجلاس والے دن اسمبلی جانے والی شاہراہوں پر پہرے لگادیے، خار دار تاریں بچھادی گئیں، شہر میں خوف اور بے یقینی کا ماحول پیدا کردیا تھا۔حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئٹہ اور پورے صوبے بالخصوص منتخب اپوزیشن اراکین کے حلقوں میں غیر منتخب لوگوں کے ذریعے ترقیاتی کام کرائے جارہے ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کام بھی غیر پختہ اور غیر معیاری کرایا جاتا ہے، حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان شاید ہی کسی معاملے پر اتفاق ہو جو کسی المیہ سے کم نہیں۔جام نے ہنگامہ خیز بجٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بالخصوص سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت بی این پی پر طنز کیا کہ اختر مینگل صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے ووٹ کسی سڑک یا نالے کے منصوبے کے لیے نہیں بلکہ نظریے کے لیے لیا ہے اور اب وہ اسکیمیں مانگ رہے ہیں، کیا اب انہوں نے اپنا نظریہ اور مؤقف تبدیل کرلیا ہے؟۔ طعنہ دیا کہ بی این پی نے بیس سالہ پرانے کارکن کو سینیٹ سیٹ پر ترجیح نہ دی۔ اشارہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں بی این پی کے امیدوار ساجد ترین ایڈووکیٹ کی طرف ہے، جسے مارچ 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں غیر متوقع شکست ہوئی اور ان کی جگہ دوسری ترجیح پر موجود بی این پی کے امیدوار قاسم رونجھو کامیاب ہوئے۔بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 23 ارکان پر مشتمل حزب اختلاف کے اندر بھی پوری طرح ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں نواب اسلم رئیسانی حزب اختلاف کی پریس کانفرنس اور غیر رسمی گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ حزب اختلاف والے تنہائی میں فنڈز کے لیے وزیراعلیٰ سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
بقول نواب رئیسانی کہ اگر وہ ایسا کریں تو اپنے حلقے کے لیے ذاتی حیثیت میں بہت سارا فنڈ حاصل کرسکتے ہیں۔غیر استعمال شدہ چالیس ارب روپے کے قضیہ کی اصل یہ ہے کہ حزب اختلاف نے پی ایس ڈی پی کیخلاف عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے بھی روکنے کا حکم دے دیا، یوں 4 یا 5 ماہ کے تعطل نے صوبے کے اندر ترقیاتی عمل روک دیا، نتیجتاً رقم خرچ نہ ہوسکی۔اب ایسا بھی نہیں کہ جام کمال ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوئے ہیں، یقیناً صوبے کی فلاح و ترقی کے ضمن میں چھوٹے بڑے منصوبے روبہ عمل ہیں، البتہ حکومت مثالی بھی نہیں، اچھا وزیراعلیٰ اچھے ساتھیوں سے محروم ہے۔ جام کمال اپنی جماعت کے اندر بھی الجھے ہوئے ہیں، اتحادیوں میں سردار یار محمد رند ناخوش ہیں، اپنی جماعت میں اسپیکر عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہیں۔یہ امر پیش نظر رہے کہ اسمبلی ہنگامہ کے اندر عبدالقدوس بزنجو اہم محرک ہیں۔ یہ بد نما منظر نامہ عبدالقدوس بزنجو کی آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے وقوع ہوا ہے، یعنی اسپیکر بہر طور چاہتے ہیں کہ جام کے لیے کوئی لمحہ سکون اور راحت کا نہ گزرے، اب جبکہ حکومت نے صورتحال کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے تو اس میں عبدالقدوس بزنجو کی نیت و رضا بھی پیش نظر رکھی جانی چا ہیے ۔اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے در اصل اول سے جام مخالف روش اپنا رکھی ہے، وزیراعلیٰ جام کمال نے مئی 2021ء میں عبدالقدوس بزنجو کو مراسلہ لکھا اور شکایت کی کہ حکومتی ارکان کو اسمبلی کی کارروائی کے حوالے سے تحفظات ہیں، اسمبلی اجلاسوں میں قوائد کے خلاف اپوزیشن کو زیادہ وقت دیا جاتا ہے جبکہ حکومتی بینچوں کے ارکان سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے اور یہ کہ حکومتی و اپوزیشن ارکان کو مساوی وقت دیا جائے، اسمبلی میں اسٹینڈنگ کمیٹیوں کا بھی ازسر نو جائزہ لیا جائے، ایوان میں کارروائی صرف اپوزیشن کی مرضی کے مطابق نہ چلائی جائے، اسپیکر نے وہ مراسلہ جام مخالف فضاء بنانے کی غرض سے ذرائع ابلاغ کی زینت بنایا۔پھر جام کمال کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے 28 مئی 2021ء کے اخبارات میں جوابی پورا مضمون جاری کردیا، الٹا چور کوتوال کو ڈاٹنے کے مصداق جام کمال کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی۔ میر عبدالقدوس بزنجو نے جام سے کہا کہ آپ خود ایوان میں نہیں آتے نہ وزراء دلچسپی لیتے ہیں۔ اس بناء پر حزب اختلاف کو زیادہ بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔انہوں نے وزیراعلیٰ کی جانب سے مراسلہ میں کہی گئیں باتوں کو بے بنیاد کہا، بیورو کریسی کو بھی ہدف تنقید بنایا کہ متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز اجلاسوں میں موجودگی یقینی نہیں بناتے۔ مزید برآں ایک اور موقع پر عبدالقدوس بزنجو یہ قرار دے چکے ہیں کہ جام کمال کے رویے کو دیکھتے ہوئے باپ پارٹی کا چلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔بہرحال جام کمال متحرک وزیراعلیٰ ہیں، ایوان میں موجودگی کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں، اجلاسوں میں حاضر بھی ہوتے ہیں۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناطے انہیں اندرون اور بیرون صوبہ بریفنگز، ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح اور اجلاسوں میں جانا ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ حزب اختلاف کو قریب لانے کی کوشش کریں، ایسے میں وزیراعلیٰ کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔