میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک امریکا فوجی تعلقات .... نئی امریکی انتظامیہ کے رنگ ڈھنگ نئے یا پرانے ؟

پاک امریکا فوجی تعلقات .... نئی امریکی انتظامیہ کے رنگ ڈھنگ نئے یا پرانے ؟

منتظم
بدھ, ۱۸ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایچ اے نقوی
امریکا کے نامز د وزیردفاع جیمز میٹس نے گزشتہ دنوں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو سیکورٹی شرائط پر دی جانے والی امداد کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔نامزد وزیر دفاع نے اپنی توثیق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے دوران کہا کہ سیکورٹی شرائط پردی جانے والی امداد دونوں ممالک کی تاریخ کا حصہ رہی ہے، مگر وہ اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وہ ان معاملات کا از سر نوجائزہ لیں گے۔نامزد وزیر دفاع کے مطابق خاص طور پر ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ پاکستان کسی بھی رویے سے مقامی عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔دیکھا جائے تو جیمز میٹس کی جانب سے دیے جانےو الے دلائل امریکی دارالحکومت میں پاکستان کے خلاف پردے میں دیے جانے والے دلائل کا سلسلہ تھے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے پاکستان پر ہمیشہ برے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جیسے 90کی دہائی میں پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد امریکا نے پابندیاں عائد کیں۔پاکستان کے خلاف لگائی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کرنے والے لوگوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے جوہری تجربات ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے نہیں بلکہ بھارت کے جواب اور امریکا کے ساتھ روابط کی وجہ سے بڑھنے والی دہشت گردی کو کم کرنے کے لیے کیے ہیں۔نامزد وزیر دفاع جیمز میٹس نے سینیٹ پینل کے سامنے پیش ہونے کے بعد اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ وہ وزیر دفاع کی حیثیت سے پالیسی پر عمل کریں گے۔جیمز میٹس نے کہا کہ وہ پاکستان اورامریکا کے درمیان سیکورٹی امداد کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی سے رجوع کریں گے۔نامزد وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور حالیہ برسوں میں خراب ہونے والے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کام کریں گے، مگر ساتھ ہی انہوں نے اسلام آباد سے درخواست کی کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گرد گروپوں کوبے اثر کرے۔سفارتی مبصرین نامزد سیکریٹری دفاع کے اس بیان کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے لیے فوجی پالیسی کی جھلک کے طور پر بیان کر رہے ہیں، جس میں اوباما انتظامیہ کی ’گاجر اور چھڑی‘ کی پالیسی کا تسلسل ہے۔نامزد وزیر دفاع کے ایسے بیان کو نئی دہلی اور کابل میں حساس طور پر دیکھا گیا، جہاں کی میڈیا نے سرکاری عہدیداروں کے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسلام آباد کو اپنے دونوں پڑوسی ممالک کے حوالے پالیسی تبدیل کرنے کے لیے زور ڈالے گی۔
دوسری جانب واشنگٹن میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے امریکا کے ساتھ تعلقات کی دوبارہ تعمیر کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ مجوزہ ایف 16 طیاروں کی فروخت کی منظوری دے کر اسلام آباد کے حق میں کوئی فیصلہ کرے گی۔جلیل عباس جیلانی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو عوام کے منتخب رہنما ہیں جو ایف 16 سمیت دیگر معاملات کو ہمدردی کے طور پر دیکھتے ہیں۔پاکستانی سفیر کے مطابق امریکی عوام القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے اقدام نہیں چاہتے اور وہ پاکستانی موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ ایف 16 جہاز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مفید آلہ ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ برس امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف سولہ جہازوں کی مد میں فنڈز جاری کرنے سے اوباما انتظامیہ کو روک دیا تھا، مگر پاکستانی سفیر کو امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد دنوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے، کیوں کہ نئی انتظامیہ میں کئی ایسے ریٹائرڈ جنرل شامل ہیں جنہوں نے پاک، افغان خطے میں کام کیا ہے۔گزشتہ دنوں جلیل عباس جیلانی نے امریکی میڈیا کو دیے گئے ظہرانے سے خطاب کیا، پاکستانی سفیر آئندہ ماہ اپنی مدت پوری کر رہے ہیں، جس کے بعدخارجہ سیکریٹری اعزاز احمد چوہدری امریکا میں سفیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے بھی کردار ادا کرے گی۔انہوں نے یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ منتخب نائب امریکی صدر مائیک پینس نے حال ہی میں کشمیر تنازع کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے سمیت کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیائی خطے میں مو¿ثر کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ادھر نامزد امریکی وزیر دفاع نے اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان کی سلامتی اور تحفظ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور وہ پاکستان سے فاٹا میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان مشترکہ اسٹریٹجک مفادات والے علاقوں سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ’دہشت گردی اور بغاوت کے خلاف جاری جنگ میں امریکا کے اسٹریٹجک سامان کی افغانستان ترسیل کے لیے پاکستان کی فضائی اور سمندری حدود امریکا کی معاون ہوتی ہیں‘جب کہ بحیرہ عرب میں لوٹ مار کے تحفظ میں بھی پاکستانی مدد درکار ہوتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی جانب سے امریکا کے ساتھ بھرپور معاونت بلکہ ضرورت اور طلب سے زیادہ معاونت ،جس کو امریکی حکام بھی تسلیم کرتے ہیں،کے باوجود گزشتہ 5سال کے دوران پاکستان کو فراہم کی جانے والی امریکی سیکورٹی معاونت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کی سیکورٹی معاونت کے حوالے سے دستیاب اعدادوشمار سے پتا چلتاہے کہ 2011 سے اب تک پاکستان کیلیے امریکی سیکورٹی معاونت میں 73 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس (سی آر ایس) کی مرتب کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ 2011 سے اب تک پاکستان کو فراہم کی جانے والی عسکری اور اقتصادی معاونت میں کمی آئی ہے۔کانگریس کے سامنے پیش کرنے کے لیے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ میں نہ صرف 2002 سے 2015 کے دوران پاکستان کو فراہم کی جانے والی عسکری و اقتصادی معاونت کا احاطہ کیا گیا ہے بلکہ مالی سال 2016 اور 2017 کے لیے مختص کردہ امداد کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2011 سے اب تک پاکستان کو دی جانے والی معاشی امداد میں 53 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کے انکشاف اور پاکستانی چیک پوسٹ سلالہ پر امریکی فضائی حملے میں24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ آنا شروع ہوا۔اگست کے اوائل میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے پاکستان کو فوجی امداد کی مد میں 30 کروڑ ڈالر جاری نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائیاں نہیں کررہا تاہم پاکستان اس الزام کو یکسر مسترد کرتا ہے۔پاکستان کو سیکورٹی کی مد میں امریکا سے ملنے والی امداد کا حجم 2011 میں 1.3 ارب ڈالر تھا جو 2015 میں 73 فیصد کمی کے بعد 34 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہ گیا۔اسی طرح پاکستان کو دی جانے والی معاشی امداد 2011 میں 1.2 ارب ڈالر تھی جو 2015 میں کم ہوکر 56 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ہوگئی۔سی آر ایس کے اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی جریدے ”دی ایٹلانٹکس نیوز سروس، دی وائر“ نے لکھا کہ امریکا سے رنجش پاکستان کو اس کے دوست ملک چین سے مزید قریب کرسکتی ہے۔
دی وائر کے تجزیہ کار کاکہنا ہے کہ 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد کی معطلی کبھی قریبی اتحادی سمجھے جانے والے ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کا اشارہ ہے اور یہ معاملہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔معطل ہونے والی 30 کروڑ ڈالر کی امداد پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنی تھی جس کے تحت 2002 سے اب تک امریکا 14 ارب ڈالر فراہم کرچکا ہے۔سی آر ایس کی رپورٹ کے مطابق 2002 سے 2014 کے دوران پاکستان کی مجموعی فوجی اخراجات میں سے کولیشن سپورٹ فنڈ کا حصہ 20 فیصد تھا۔ پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کے وقت امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اپنے فضائی اور بحری اڈوں کے استعمال کی اجازت دے کر کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں اس کا بدلہ حاصل کیا اور اس دوران افغان سرحد کے اطراف تقریباً ایک لاکھ فوجی تعینات تھے۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کو دی جانے والی امداد کا تقریباً نصف حصہ خوراک اور جنگی ساز و سامان پر خرچ کیا گیا۔سی آر ایس کے اعداد و شمار کے مطابق 2002 سے 2015 کے دوران امریکا کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی مجموعی امداد 32.2 ارب ڈالر میں سے کولیشن سپورٹ فنڈ کا حصہ 43 فیصد ہے۔اسی طرح معاشی امداد کا حصہ 33 فیصد (10.6 ارب ڈالر) اور سیکورٹی امداد کا حصہ 24 فیصد (7.6ارب ڈالر) رہا ہے۔امریکی میڈیا نے پاکستان کے لیے امریکی امداد میں کمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے اور وہاں 20 ہزار 877 عام شہری اور 6 ہزار 370 سیکورٹی اہلکار 2003 سے 2015 کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔امریکی میڈیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشتگردی کی وجہ سے 2004 سے 2015 کے دوران پاکستانی معیشت کو 115 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی ایک مثال ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے معاہدے کی منسوخی بھی ہے۔
امریکا نے فارن ملٹری فنانسنگ پروگرام کے تحت پاکستان کو 27 کروڑ ڈالر کی رعایتی قیمت میں 8 ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم کانگریس کی شدید مخالفت کی وجہ سے مئی میں یہ منصوبہ منسوخ کردیا گیا جسکے بعد پاکستان طیاروں کی اصل قیمت یعنی 70 کروڑ ڈالر ادا کرکے انہیں خرید سکتا ہے۔دی وائر لکھتا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو طیاروں کی فروخت سے انکار کو بھارت میں سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا کیوں کہ انڈین حکومت اور بھارتی نژاد امریکی اسکے خلاف کانگریس میں کافی سرگرم تھے۔جریدے کا مزید کہنا ہے کہ ان اقدمات سے امریکا کی پاکستان کے حوالے سے موقف میں آنے والی تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے جو کئی دہائیوں سے امریکی سبسڈیز سے فائدہ اٹھارہا ہے اور امریکی امداد کی وجہ سے اس کی عسکری صلاحیتوں اور ساز و سامان میں اضافہ ہوا ہے۔
سی آر ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان 2001 سے امریکا سے 1.2 ارب ڈالر کے ویپن سسٹمز وصول کررہا ہے جن میں 47 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کے 8 پی تھری سی اورین میری ٹائم پیٹرول ایئرکرافٹ اور 4 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے 20 اے ایف 1 ایف کوبرا اٹیک ہیلی کاپٹرز شامل ہیں۔گزشتہ برس اپریل میں امریکی محکمہ خارجہ نے 95 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے فوجی ساز و سامان کی پاکستان کو فروخت کی منظوری دی تھی جس میں 15 اے ایچ 1 زیڈ وائپر اٹیک ہیلی کاپٹرز اور ایک ہزار ہیلفائر 2 میزائلز شامل تھے۔اس کے علاوہ 5 اپریل 2016 کو امریکا نے پاکستان کو مذکورہ ہیلی کاپٹرز کی خریداری کے لیے 17 کروڑ ڈالر فراہم کرنے اور اضافی فیول کٹس دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔پاکستان امریکا سے 60 ایف سولہ اے/ بی طیاروں کے لیے 89 کروڑ 20 لاکھ ڈالر مالیت کے اپ ڈیٹڈ کٹس بھی حاصل کررہا ہے جن میں سے 47 کروڑ 70 لاکھ ڈالر امریکا ادا کررہا ہے۔2001 سے پاکستان امریکی ہتھیاروں کی مد میں 2.5 ارب ڈالر کی ادائیگی کرچکا ہے یا اب بھی کررہا ہے۔
امریکا کے ایکسس ڈیفنس آرٹیکلز (ای ڈی اے) پروگرام کے تحت پاکستان نے 14 ایف سولہ اے / بی فائٹنگ فیلکن ایئرکرافٹ اور 374 ایم 113بکتر بند گاڑیاں رعایتی قیمتوں میں حاصل کیں۔ای ڈی اے ویپنز وہ استعمال شدہ ہتھیار ہیں جو امریکا نے افغانستان سے انخلاکے دوران پاکستان کو دیے ہیں۔کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت امریکا پاکستان کو 26 بیل 412 ای پی یوٹیلٹی ہیلی کاپٹر فراہم کرچکا ہے جن کی مالیت 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہے۔پاکستان کاﺅنٹر انسرجنسی فنڈ سے امریکا نے فرنٹیئر کور کے لیے 450 گاڑیاں، چار ایم آئی 17 ملٹی رول ہیلی کاپٹرز اور دیگر ساز و سامان فراہم کیے ہیں، یہ پروگرام 2013 میں ختم ہوگیا تھا۔امریکا نے پاکستان کے تقریباً 2 ہزار فوجی افسران کی تربیت کے لیے بھی فنڈنگ کی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ عسکری و معاشی معاونت میں کیا رنگ ڈھنگ دکھاتی ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں