امیتابھ بچن پر مقدمہ اور برہمن نفسیات
شیئر کریں
تاریخ پلٹ کر وار کرتی ہے، اور تاریخ کا وار کاری ہوتا ہے۔
بظاہر یہ ایک سادہ سی خبر ہے، بھارت کے نامور اداکار اور’’کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ کے میزبان امیتابھ بچن کے خلاف اپنے شو میں ایک سوال پوچھے جانے پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مگر اس مقدمے کی ہندو نفسیات میں ہزاروں سال کی تاریخ سمٹ آئی ہے۔ پہلے سوال پڑھ لیجیے: ’’ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ان کے پیروکاروں نے 25 ؍دسمبر 1927 ء کو ان میں سے کس دھرم گرنتھ (صحیفے)کی کاپیاں جلا ئی تھیں‘‘؟
سوال کے ساتھ جواب کے لیے چارانتخاب(آپشنز) دیے گئے تھے جو کچھ یوں تھے:1۔وشنو پرانا، 2۔ بھاگوت گیتا، 3۔رگ وید، 4۔ منوسمرتی۔
امیتابھ بچن کی جانب سے اس سوال کے پوچھے جانے پر بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ایک رہنما ابھیمنیو پوار نے امیتابھ بچن کے خلاف ایک مقدمہ درج کرادیا۔ صرف اتنا ہی نہیں، امیتابھ بچن کے خلاف ملک بھر میں ردِ عمل کی ایک منظم لہر اُٹھنے لگی۔ یہاں تک کہ موبائل فون پر انتظار کے دوران میں کورونا پیغام کے حوالے سے چلنے والے امیتابھ بچن کی آواز میں پیغام کو ہٹائے جانے کا مطالبہ مختلف موبائل کمپنیوں سے ہونے لگا۔تاریخ کے مختلف ادوار میں جب بھی ہندو ذہنیت ردِ عمل میں بروئے کار آتی ہے، تو بے رحمی اورسفاکی اس کے اجتماعی مزاج و عمل میں جھلکتی ہے۔ امیتابھ بچن کے معاملے میں بھی یہی نظر آیا۔
امیتابھ بچن نے جو سوال پوچھا تھا، وہ ایک سادہ سوال نہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے 25 ؍دسمبر 1927 ء کو اپنے پیروکاروں کے ساتھ ہندؤں کی مقدس کتاب منوسمرتی کے اوراق کیوں جلائے تھے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے پہلے ڈاکٹر امبیڈ کر کے بارے میں جان لیجیے۔
بھیم راؤ رام جی امبیڈکر (14 ؍اپریل 1891ء تا 6 ؍دسمبر 1956ئ) ایک قانون دان، رہنما، فلسفی،مورخ اور مصلح تھے۔وہ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے وزیرقانون تھے۔ وہ بھارتی دستور کے سب سے اہم مصنف تھے۔اُنہوں نے ممبئی یونیورسٹی،کولمبیا یونیورسٹی اور ایل ایس ای (لندن اسکول آف اکنامکس) سے تعلیم حاصل کی۔ اُن کے پیروکار اُنہیں’’باباصاحب‘‘ کہتے ہیں۔مگر اپنی کسی بھی تعلیمی فضلیت اور حیثیت میں وہ اپنے پیروکاروں کے لیے ’’بابا صاحب‘‘ کا رتبہ نہ پاسکتے تھے، اگر وہ دلت کی حیثیت سے ایک عظیم اور قابل رشک جدوجہد نہ کرتے۔ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا جو اس دلت رہنما کے ساتھ بچپن سے موت تک ہوتا رہا۔ مراٹھی اور گجراتی زبان بولنے والے بابا امبیڈ کر ذات پات میں تقسیم، ہندو معاشرے میں وہ پہلے دلت تھے، جو اسکول میںبرہمن نفرت وحقارت کے آگے ڈٹے رہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اُن سے پہلے اچھوت طلباء برہمن نفرت کا مقابلہ کرنے میں ناکامی پر کبھی ہائی اسکول میں کامیابی حاصل نہ کرپاتے تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر جب کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھ کر واپس آئے تو اُنہیں بڑودا ریاست کے شودر مہاراجہ کی جانب سے سیکریٹری دفاع کا عہدہ پیش کیا گیا۔ مگر بروڈا ریاست میں کسی نے بھی اپنے سیکریٹری دفاع کو کرایے کا گھر نہیں دیا، یہاں تک کہ اُنہیں خود اُن کے برہمن ماتحتوں نے پانی نہیں پلایا۔اُن کا برہمن نائب قاصد اُنہیں کوئی بھی فائل ہاتھ سے نہیں دیتا تھا بلکہ اُن کی جانب پھینک دیتا تھا، کیونکہ برہمنوں کا یقین ہے کہ اچھوتوں کو چھونے سے وہ ناپاک ہوجاتے ہیں۔ بابا امبیڈکر اس نوکری کو چھوڑ کرمزید تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ بابا امبیڈ کر نے واپسی پر اچھوتوں کے حقوق کے لیے عظیم جدوجہد کا آغاز کیااور ذات پات کے بھارتی سماج کے خلاف مضبوط آواز اُٹھائی۔ اس سلسلے میں اُن کا ’’گاندھی‘‘ سے ایک معاہدہ بھی ہوا، جسے پونا پیکٹ (1932)کہا جاتا ہے۔ گاندھی بعد میں اس معاہدے سے منحرف ہوگیا تھا۔ جسے بابا امبیڈکر نے ’’عظیم غداری‘‘ کہا تھا۔ تب ڈاکٹر امبیڈکر نے کروڑوں اچھوتوں کے ساتھ مل کر اسلام قبول کرنے کا عندیہ دیا تھا، جس سے گاندھی، کانگریسی رہنماؤں اور انگریزوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے بابا امبیڈکر کو روکے رکھا۔
برہمن ہندؤں نے اچھوتوں کا مقدمہ لڑنے والے ڈاکٹر امبیڈکر کو مختلف طریقوں سے دھوکوں پر دھوکے دیے۔بابا امبیڈکر نے اچھوتوں کے حقوق کی جدوجہد کے مختلف ادوار میں 1927ء میں ایک موقع پر آکر ذات پات کے پورے ہندو نظام کو مستحکم کرنے والی مذہبی کتاب ’’منو سمرتی‘‘ کے اوراق جلادیے۔
اب ذرا ہندؤں کی مقدس کتاب ’’منو سمرتی‘‘کو بھی سمجھ لیجیے۔ ہندو سماج کو جس کتاب کی طاقت سے ذات پات میں تقسیم کیا گیا ہے، وہ یہی منوسمرتی ہے۔ ہندو دھرم ساشتر یہاں واضح طور ہر انسانی آبادیوں کی برابری چھین کر اُنہیں چار ذاتوں میں بانٹتا ہے۔ یعنی برہمن، کشتری، ویش اور شودر۔ ان چار ذاتوں میں سے سب سے نچلی ذات یعنی شودر کا صرف ایک جنم ہوتا ہے جبکہ باقی تین ذاتیں مرنے کے بعد دوبارہ جنم لیتی ہیں۔ ان چار ذاتوں کی تشکیل کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ برہمن برہما کے سر سے پیدا ہونے کے باعث دیوتا کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے حقوق سب سے زیادہ ہیں، وہی علم ودھرم کے محافظ ہیں۔ برہمنوں کے بعد کشتری دراصل برہما کے بازو سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کی خصوصیت شجاعت ہے، وہ حکومت کرنے کا پیدائشی حق رکھتے ہیں۔ اُن کے بعد ویش ہیں۔ جو برہما کے ران سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور اُن کا انتخاب تجارت وصنعت کے لیے کیا گیا ہے۔ اس ذات پات کے نظام میں سب سے آخر ی درجہ شودروں کا آتا ہے۔ جن کی تخلیق برہما کے پیروں سے ہوئی ہیں۔ ان شودروں کی وضاحت منوسمرتی میں کچھ یوں ہوئی ہے۔
٭ شودر (اچھوت) برہمن کے پاؤں سے پیدا ہونے کے باعث ذلیل ترین ذات ہے۔
٭ شودر کتنا ہی ذہین اور باصلاحیت ہو، دولت و جائیداد جمع نہیں کر سکتا۔
٭ شودر پر تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔
٭ برہمن چاہے، تو وہ شودر سے سب کچھ چھین سکتا ہے۔
پچھلے چار ہزار برس سے ہندو معاشرہ اس نظام کے تحت حرکت پزیر ہے۔ شودروں، اچھوتوںاوردلتوں کو انسانیت کے شرف سے گرا کر انتہائی سفاکانہ طور پر غیر انسانی سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈ کر نے انسان کے بلاامتیاز شرف کو چھینے جانے کی اس بدترین برہمن تاریخی روش کے خلاف عظیم جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے ایک مرحلے میں انہوں نے منوسمرتی کے صرف اُن اوراق کواپنے پیروکاروں کے ساتھ جلایا جو انسانوں کی اس سفاکانہ تقسیم کی بنیاد ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جسے ایک سوال کی صورت میں پوچھے جانے پر بھارت کے ہندو برہمن امیتابھ بچن پر ناراض ہوگئے۔ بی جے پی اسے ہندو مذہب کی توہین قرار دے رہی ہے۔ بھارت کی ہندو ذہنیت صرف اپنے مذہبی بہاؤ کی اس ایک لہر سے سمجھ میں نہیں آتی۔ جب بھارتی ہندو امیتابھ بچن کو بابا امبیڈ کر کی جانب سے منوسمرتی جلائے جانے کے صرف سوال پوچھے جانے پر نشانا بنارہے تھے، تو وہ ساتھ ساتھ ایک اور کام بھی کررہے تھے، یہی ہندوقوم اور ان کی برہمن ہندو حکومت فرانس میں خاتم النبیﷺ کی توہین کے رکیک واقعے کی آزادیٔ اظہار کے نام پر سرکاری حمایت کررہی تھی۔ بھارتی وزارتِ خارجہ اور پھر براہ راست وزیراعظم نریندر مودی نے میدان میں اُتر کر فرانسیسی وزیراعظم میکرون کی جانب سے توہین ِ رسالت کو آزادیٔ اظہار قرار دینے کے موقف کی حمایت کی۔ تب بھارت میں کوئی نہ تھا جو امیتابھ بچن کے صرف سوال اُٹھانے کی آزادی کی حمایت کرتا۔
بھارت کے برہمن ہندؤں کا یہی وہ بہیمانہ کردار ہے جو قدم قدم پر اچھوت رہنما باباامبیڈکر کے سامنے بے نقاب ہوتا رہا، اور ایک موقع پر آکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہندو برہمن ذہنیت کے ساتھ کسی صورت میں نباہ ممکن نہیں۔ پھر اُنہوں نے ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے ساتھ ہندو مذہب ترک کردیا۔ بابا امبیڈکر کے یہ الفاظ تاریخ میں جگمگاتے رہیں گے: میرے ہاتھ میں یہ تو نہیں تھا کہ میں کس مذہب پر پیداہوں، مگر یہ ضرور ہے کہ میں کس مذہب پر مروں‘‘۔باباامبیڈکر نے بالاخر ہندو مذہب ترک کیا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی انسانی یامحرف الہامی نظم ہوگا جس میں ایک ساتھ ایک ہی دن امیتابھ بچن کی جانب سے منوسمرتی جلانے کی مخالفت اور توہین رسالت کیے جانے پر میکرون کی حمایت کی یکساں اور متضاد گنجائش نکلتی ہو۔ یہ کثافت، رکاکت اور خباثت صرف برہمن ذہنیت کے تہہ در تہہ تعصب میں ہی نظر آتی ہے اور کہیں نہیں۔ اسی لیے قائد اعظمؒ نے ہندؤں سے ملک الگ کیا اوربابا امبیڈکر نے مذہب الگ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔