میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سید تنظیم واسطی ستم رسیدہ مسلمانوں کا پشتیبان

سید تنظیم واسطی ستم رسیدہ مسلمانوں کا پشتیبان

ویب ڈیسک
جمعه, ۵ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید تنظیم واسطی 29 اپریل بروز ہفتہ کی شب لندن میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے ، گزشتہ دنوں فاران کلب انٹرنیشنل کے سیکریٹری ندیم اقبال ایڈوکیٹ لندن سے لوٹے ، تو انھوں نے تنظیم واسطی صاحب کی بیماری کی خبر سنائی، جن سے ان کی ملاقات ہوئی ، وہ پروفیسر خورشید احمد سے بھی ملاقات کے خواہشمند تھے ۔ لیکن بیماری کے سبب ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔برطانیہ میں دین اسلام کی تبلیغ اور رفاحی کاموں اور دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصا افغانستان، کشمیر ، بوسنیا ، فلسطین، سوڈان ، چیچنیا ، برما،کے مسلمانوں کے لیے ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ سید محمد تنظیم واسطی گزشتہ چند برسوں سے پیرانہ سالی کے سبب گھر سے بہت کم باہر نکلا کرتے تھے ۔ وہ ساری عمر دنیا بھر میں ستم رسیدہ مسلمانوں کی امداد کے لیے کوشاں رہے ۔ ان کی عمر کا بہت بڑا حصہ سفر میں گزرا، دنیا بھر کے مسلمان لیڈروں ، اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اہم شخصیات، اسکالرز، صحافیوں، علماء سے ان کے خصوصی روابط تھے ۔ سید تنظیم واسطی سے میرا پہلا تعارف مدیر تکبیر محمد صلاح الدین نے 1984 میں کرایا تھا، انھوں نے مجھے ہفت روزہ تکبیر کے لیے واسطی صاحب کے انٹرویو کا اسائمنٹ دیا، نیو ایم اے جناح روڈ کے ایک فلیٹ میں میری ملاقات سید تنظیم واسطی سے ہوئی ۔ یہ ان کی بہن کا فلیٹ تھا، جہاں وہ قیام پزیر تھے ۔ بعد میں وقتاً فوقتاً ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، وہ جمعیت الفلاح اور فاران کلب سے ایک تعلق خاص رکھتے تھے ، جب بھی پاکستان آتے ، ان دو اداروں میں ان کی خصوصی بیٹھک ہوتی۔وہ ایک شفیق بزرگ کی طرح ملتے ، اور ہمیشہ دنیا میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی مشکلات کے حل کے لیے سرگرم رہتے ۔ وہ مارچ 2017 میں کراچی آئے ، تو ندیم اقبال ایڈوکیٹ نے مجھے اور ایڈیٹر جسارت مظفر اعجاز کو یہ فریضہ سونپا کہ سید تنظیم واسطی کی یاد داشتوں کو قلم بند کیا جائے ، یوں ہماری تنظیم واسطی صاحب سے طویل نشستیں ہوئیں، اور ان سے سوال جواب کی صورت میں کئی گھنٹوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔بدقسمتی سے یہ کام تنظیم واسطی کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا، انشا اللہ بہت جلد یہ قرض اور فرض ادا کرنے کی کوشش ہے ۔
2022 میں فاران کلب کراچی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے پروفیسر خورشید کی کتابوں کے سلسلے ”ارمغان خورشید ”کی تقریب رونمائی کا انعقا د کیا۔ پروفیسر خورشید احمد کا یوم پیدائش23مارچ ہے ، اور یہ تقریب بھی اسی دن منعقد ہوئی، بیماری کے باوجود سید تنظیم واسطی نے اس تقریب سے آن لائن خطاب کیا، پروفیسر خورشید سے ان کا ایک خصوصی تعلق خاطر تھا۔ سید تنظیم واسطی نے یوکے اسلامک مشن کے پہلے سیکریٹری جنرل، نائب صدر، سینئر نائب صدر، مختلف کمیٹیوں کے صدر اور مسلم ایڈ کے ٹرسٹی اور بہت سارے اداروں کی داغ بیل ڈالی اور کی سرپرستی کی۔ انکی زندگی کا مقصد، دین کی سربلندی رہا ۔ وہ اسلام کی سربلندی کے لئے زندگی بھر مصروف رہے ۔
سید تنظیم واسطی زمانہ طالب علمی سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے تھے ، وہ جمعیت کے مختلف علاقوں کے علاوہ کراچی یونیورسٹی میں بھی ناظم کے عہدے پر فائز رہے ۔ برطانیہ آکر وہ یوکے اسلامک مشن کے پلیٹ فارم سے سرگرم رہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، انہوں نے یوکے اسلامک مشن کے جنرل سیکریٹری کے طور پر بہت بڑی سالانہ کانفرنسوں کا اہتمام کیا جس میں برطانیہ بھر سے مسلمانوں کی بڑی تعداد شرکت کیا کرتی تھی۔ انھوں نے سعودی شاہ فیصل اور سید ابواعلی مودودی کے اعزاز میں برطانیہ میں ایسے شاندار استقبالیہ اور کانفرنس منعقد کیں، جس کی کوریج پوری دنیا کے میڈیا نے کی۔ یوکے اسلامک مشن کی ذمہ داریوں سے فراغت پانے کے بعد سید تنظیم واسطی نے مسلم ایڈ کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کیں، ان کا پورا گھرانہ تحریک اسلامی سے جڑا ہوا ہے ، ان دنوں بھی ان کے گھر پر خواتین کیلئے ہفتہ وار تفہیم القرآن کا ہفتہ وار درس ہوتا ہے ۔ UK Islamic Mission کی تاریخ سید محمد تنظیم واسطی کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ اپنے برطانیہ جانے کے فیصلے اور یو کے اسلامک مشن کے قیام کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ” 1964میں ایوب خان کی آمریت پورے عروج پر تھی۔ پورے ملک میں جماعت اسلامی پر سخت ابتلاء کا دور تھا۔ جماعت اسلامی کی شوریٰ کے اراکین جیلوں میں بند تھے ۔ کراچی میں چوہدری غلام محمد، پروفیسر خورشید احمد سنٹرل جیل میں تھے ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں برطانیہ جارہا ہوں تو چوہدری غلام محمد صاحب نے پیغام بھیجا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ میں بھی ان سے ملاقات کو متمنی تھا۔ تاکہ انہیں بتا سکوں کہ میں برطانیہ جارہا ہوں۔ میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ میں برطانیہ میں کس طرح تحریک کا کام کرسکتا ہوں۔ برطانیہ روانگی سے چند دن پہلے میری چوہدری غلام محمد سے جیل میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں خورشید صاحب (پروفیسر خورشید احمد) اور چوہدری غلام محمد صاحب دونوں موجود تھے ۔انھوں نے مجھے بتایا کہ برطانیہ میں لوگوں نے جماعت اسلامی کے نام سے کام شروع کردیا ہے ۔ لیکن یہاں جماعت کا فیصلہ ہے کہ بیرون ملک جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے ۔ برصغیر سے باہر جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے کوئی اور نام رکھ لیا جائے ۔ انہوں نے مجھے برطانیہ میں موجود احباب کے نام ایک خط دیا۔ میں جون 1964 کی چار تاریخ کو لندن پہنچا۔ دوسرے دن میں میں 148 لیور پول پہنچا،ان لوگوں سے ملا۔ وہاں Fosis کی میٹنگ ہورہی تھی۔ میں بھی اس میٹنگ میں شریک ہوا۔ میں نے چوہدری صاحب کا خط بیرسٹرقربان علی کو دیا۔ انہیں میں نے بتایا کہ میں جماعت اسلامی کا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اراکین کی میٹنگ بلائی۔ تین دن میٹنگ چلتی رہی ۔اس میں یہ طے ہوا کہ جماعت اسلامی کا نام ختم کرکے پرانا نام” UK Islamic Mission "رکھا جائے جو 1962ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ بنگلہ بھائیوں نے سرکل قائم کیا تھا اس کے بعد الیکشن ہوئے ۔ بیرسٹر قربان علی کو صدر چنا گیا اور مجھے جنرل سیکریٹری، یہ وہ وقت تھا جب قربان علی اپنی تعلیم ختم کرنے والے تھے اور بیرسٹر بن کر واپس مشرقی پاکستان جانے والے تھے ۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی کرتے تھے ۔ بہت سے لوگ بیرسٹر قربان کے مکان 148 لیور پول روڈ میں رہتے تھے ۔ وہ یہاں خود بھی قیام پزیرتھے ۔ ان کے علاوہ عبدالسلام صاحب تھے ۔ کچھ بنگلہ ساتھی تھے ۔ سلیم صدیقی، مظفر علی بیگ، رشید اور محمد خان کیانی اور شاید بعد میں عبدالرشید صدیقی صاحب یہاں رہے تھے ۔ یہ تمام افراد اس وقت بھی مقیم تھے ۔میرے آنے سے پہلے مولانا ظفر اسد انصاری، پروفیسر خورشید احمد، چوہدری غلام محمد سے ملا تھا۔ اس کے علاوہ حسن اطہر اور خواجہ محبوب الٰہی(اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے سابق ناظم اعلی اور ممتاز صنعتکار جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ) سے ملا تھا۔ حسن اطہر صاحب سے پہلے یہاں کے حالات معلوم کیے۔ اسلامک مشن کلچرل سینٹرمیں تحریکی لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ وہ اس کے ممبر تھے ۔ حسن اطہر صاحب ان دنوںتازہ تازہ برطانیہ میں آئے تھے ۔ انہوں نے یہاں کے حالات بتائے اور مشکلات بھی بیان کیں۔ میں نے جب چوہدری صاحب اور خورشید صاحب سے جیل میں ملاقات کی تو انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بیرون ملک تحریک کا کام کیسے کرنا ہے ۔ مثلاً جماعت اسلامی کا ڈائریکٹ کنٹرول نہیں ہوگا۔ تاکہ اگر باہر کوئی ایسا کام ہو جو جماعت نہیں کرنا چاہتی تو اس کا نقصان جماعت کو نہ پہنچے ۔ اس کے علاوہ اخوان کے ساتھ جماعت کے روابط تھے ۔ ان میں طے ہوا تھا کہ برصغیر (ہندوستان اور پاکستان )میں جماعت اسلامی کے نام سے کام کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں اخوان کے نام سے کام کریں گے تاکہ اپنے اپنے ایریا میں کام کیا جائے ۔اسی لیے جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے ۔ (جاری ہے)
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں