میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کس نے بھتہ لیا‘ کس نے فیکٹری جلائی؟....سانحہ بلدیہ کے مرکزی ملزم نے زبان کھول دی

کس نے بھتہ لیا‘ کس نے فیکٹری جلائی؟....سانحہ بلدیہ کے مرکزی ملزم نے زبان کھول دی

منتظم
بدھ, ۲۸ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

کون کس سے ہدایت لے رہا تھا سانحہ میں کس کا کیا کردار تھا ‘رحمن بھولا کے سنسنی خیز انکشافات
سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے مرکزی ملزم عبدالرحمن عرف بھولا نے عدالت کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں انکشاف کیا کہ ایم کیو ایم کے وزرا نے سانحہ بلدیہ ٹاو¿ن دبانے کے لیے اپنی جماعت کا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزم عبدالرحمان عرف بھولا کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیاتھا،جوڈیشل مجسٹریٹ غربی عابد علی لاکھو نے ضابطہ فوج داری کی دفعہ 164کے تحت ملزم رحمن عرف بھولا سے 11سوالات کئے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے سوال کیا کہ آپ اپنا جرم کیوں قبول کررہے ہیں جس پر ملزم نے کہا کہ جرم قبول کرنے کےلئے مجھے میرا ضمیر کہہ رہا ہے، ملزم سے دوسرا سوال کیا گیا کہ اس جرم کے قبول کرنے کے کیا اثرات ہوں گے جانتے ہو؟ جس پر رحمن عرف بھولا کاکہنا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ مجھے سزا ہی ملنی ہے۔جوڈیشل مجسٹریٹ نے تیسرا سوال کیا کسی حساس ادارے یا پولیس نے کہا کہ جرم قبول کرلو تمھیں وعدہ معاف گواہ بنالیں گے؟ ملزم نے جواب دیا نہیں ایسا نہیں ہے، چوتھا سوال تھا کہ تم سمجھتے ہو ناں کہ تم اقبالی جرم کے پابند نہیں ہو؟ جواب ملا کہ ہاں مجھے علم ہے۔ملزم سے پانچواں سوال کیا گیا کہ تم اس بات کو سمجھتے ہو کہ یہ بیان ایک مجسٹریٹ کے سامنے دے رہے ہو اور یہ تمھارے خلاف بھی جاسکتا ہے ؟ ملزم نے ہاں میں جواب دیا، چھٹے سوال میں پوچھا گیا کہ تمھیں پتہ ہے بیان نہ دینے سے انکار کردو گے تو جیل روانہ کردوں گا؟ جس پر جواب ملا کہ میں اپنی مرضی سے جرم قبول کررہا ہوں مجھے معلوم ہے۔مجسٹریٹ نے ساتواں سوال کیا کہ کیا تم کسی ڈر یا دھمکی کی وجہ سے جرم قبول کررہے ہو ، جس پر بھولا کا جواب تھا ہرگز نہیں۔ مجسٹریٹ نے رحمن بھولا سے پوچھا کہ پولیس نے تشدد تو نہیں کیا جس پر ملزم نے نہ میں جواب دیا، نواں سوال تھا کہ جرم قبول کرنے کے لئے تمھارے اہل خانہ کو تو ہراساں نہیں کیا جارہا؟ ملزم نے کہا نہیں ایسانہیں ہے۔ملزم رحمن سے دسواں سوال کیا گیا کہ کیا اس بات سے واقف ہو کہ یہ جرم قبول کرو یا نہیں تمھیں جوڈیشل لاکپ بھیجا جائے گا اور پولیس کے حوالے ہرگز نہیں کیا جائے گا جس پر ملزم نے کہا کہ جی معلوم ہے۔ مجسٹریٹ کا گیارہواں اور آخری سوال تھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟آخری سوال کے بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزم نے بتایا کہ 1992میں سیکٹر انچارج امین خان کے کہنے پر ایم کیوایم میں شمولیت اختیار کی، پارٹی میں شمولیت کے بعد علم ہوا ہے کہ ایم کیوایم کی پالیسی کے مطابق خون خرابہ، بھتہ، گاڑیاں جلانا، دکانیں بند کرنا اور ہوائی فائرنگ کرکے خوف ہراس پھیلانا شامل ہے۔2009میں کراچی تنظیمی کمیٹی کے ممبران عرفان خان، زاہد اور حنیف میمن کی سفارش پر بلدیہ کا سیکٹر ممبر بنایا گیا، بطور سیکٹر ممبر بھتے کی مد میں کروڑوں اور کھالوں کی مد میں لاکھوں روپے نائن زیرو میں جمع کرائے،میں نے اس دوران 7 افراد کو قتل کیا جبکہ میری ٹیم کے لوگوں نے درجنوں افراد کو قتل کیا۔ ہم جو بھی کرتے تھے ایم کیو ایم کی پالیسی ہوتی تھی۔ جولائی 2012میں کے ٹی سی انچارج حماد صدیقی نے نائن زیرو بلایا اور کہا کہ اصغر بیگ کو ہٹا کر تمھیں بلدیہ کا سیکٹر انچارج بنایا جارہا ہے لیکن ساتھ ہی ایک ہدف دیا جارہا ہے جو تمھیں ہرحال میں پورا کرنا ہے، تمھیں ٹاسک دیا جارہا ہے کہ بلدیہ ٹاو¿ن میں علی انٹرپرائزز کے نام سے ایک فیکٹری ہے اس کے مالکان سے 25کروڑ بھتہ لینا ہے۔رحمن عرف بھولا نے بتایا کہ میں فیکٹری مالکان سے ملا اور بتایا کہ حماد صدیقی نے بھتے کے لئے بھیجا ہے جس پر مالکان نے سوچنے کا وقت مانگا، چند روز بعد فیکٹری مالکان نے کہا کہ ہم ایک کروڑ روپے سے زیادہ نہیں دے سکتے، جس پر میں نے کہا کہ آپ ہمیں فیکٹری میں شراکت داری دے دیں ورنہ ہم آگ لگا دیں گے اور اس کے بعد فیکٹری کے منیجر منصور سے بھی رابطہ کیا لیکن اس نے بھی یہی کہا کہ ہم ایک کروڑ روپے ہی دے سکتے ہیں۔رحمن بھولا نے کہا کہ میں اور زبیر چریا نائن زیرو گئے اور حماد صدیقی کو پوری تفصیل بتائی جس پر حماد صدیقی نے غصے میں آکر کہا کہ فیکٹری کو آگ لگا دو اور اس کی ذمہ داری زبیر عرف چریا کو سونپ دی گئی اور کہا گیا کہ فیکٹری کو آگ لگانے کے لئے کیمیکل وغیرہ کا بندوبست کرنا ہے۔رحمن بھولا نے بتایا کہ 11 ستمبر 2012کو زبیر چریا سفید ہائی روف میں اپنے دیگر ساتھیوں سمیت آیا اور کہا کہ آگ لگانے کا بندوبست کرلیا ہے میں موٹرسائیکل پر خود ان کے ساتھ فیکٹری تک گیا اور انہیں چھوڑ کرآیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد زبیر چریا نے فون پر بتایا کہ کام ہوگیا ہے، میں نے حماد صدیقی کو فون کرکے بتایا کہ کام ہوگیا، جس پر حماد صدیقی نے کہا کہ ایم کیوایم کے ایم این اے اور ایم پی ایز اور کارکنوں کے ساتھ مل کر فیکٹری میں جا اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لو، جس کے بعد ہم نے 4 سے 5دن تک فیکٹری کے باہر امدادی کیمپ لگائے۔
رحمن بھولا کے تمام الزامات مسترد کرتا ہوں رو¿ف صدیقی
رحمان بھولا کے انکشافات اور اعترافی بیان سامنے آنے کے بعد سابق وزیر صنعت و تجارت روف صدیقی کا کہنا تھا کہ میں جائے وقوعہ پر پر بطور وزیر تجارت و صنعت کھڑا تھا،استعفی دینے کے بعد متاثرین کو حکومت نے معاوضہ ادا کیا ،رحمن بھولا کے تمام الزامات کو مسترد کرتا ہوں مجھے رسوا کرنے کی کوشش کی گئی ہے میں کلمہ طیبہ اور قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سانحہ سے پہلے میں اس فیکٹری کے مالکان کو نہیں جانتا تھا مجھے کبھی بھتے وغیرہ کے حوالے سے کوئی شکایات نصیب نہیں ہوئی اربوں روپے تو کیا میں نے فیکٹری مالکان سے ایک روپیہ بھی طلب نہیں کیا اگر میں مروں تو مجھے کلمہ نصیب نہ ہو اگر میں گنہگار ہوں تو جو گنہگار ہیں انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے بھلے ملزم میرا ساتھی ہو یا دشمن سخت سزا کا حقدار ہے۔
سانحہ بلدیہ کیس گرفتار ملزمان کی تعداد8ہوگئی
ماڑی پور پولیس نے سانحہ بلدیہ کیس کے مرکزی ملزم رحمان عرف بھولا کی نشاندہی پر قریبی ساتھی غلام علی کو گرفتار کر لیا، جس کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق غلام علی عرف گولی بلدیہ فیکٹری کو آگ لگانے میں ملوث ہے اور ملزم نے سانحے کے بعد پنجاب میں رہائش اختیار کرلی تھی، ملزم سانحہ بلدیہ میں مطلوب بھی تھا۔ایس ایس پی سٹی نے غلام علی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گولی کا تعلق ایم کیو ایم لندن کے گروہ سے ہے۔اب اس کیس میں باقاعدہ گرفتار ملزمان کی تعداد8ہوگئی ہے۔
حماد صدیقی بھی گھوسٹ ملازم تھا
متحدہ قومی موومنٹ کی تنظیمی کمیٹی کے سابق انچارج حماد صدیقی گھوسٹ ملازم نکلے۔حماد صدیقی 1997میں محکمہ ہیلتھ میں بھرتی ہوئے تھے اور محمکہ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ایک لاکھ روپے سے زائد تنخواہ ماہانہ وصول کررہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق میئر مصطفی کمال کے دور میں انہیں ان کے عہدے پر حاضری سے مستثنی قرار دیا گیا تھا۔حماد صدیقی 2013میں دبئی چلا گیا تھا۔ایم کیو ایم نے حماد صدیقی کو پارٹی کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے الزام میں پارٹی رکنیت سے معطل کردیا تھا۔واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے سینئررہنما ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل میں معاونت کے ملزم معظم علی نے بھی تفتیش کے دوران حماد صدیقی کو موردِ الزام ٹہرایا ہے۔ محکمہ صحت نے حماد صدیقی سمیت 42گھوسٹ ملازمین کی برطرفی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ تمام ملازمین رفیقی شہید اسپتال سے برطرف کیے گئے ہیں۔پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس احمد ایڈوکیٹ نے رحمان بھولا اعترافی بیان کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے حماد صدیقی کا دفاع کیا اور انہیں پارٹی کی جانب سے مکمل قانونی مدد فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا۔انیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ حماد صدیقی واقعے میں ملوث نہیں تھا، وہ میرے رابطے میں ہے ہردوسرے روز فون پر بات چیت ہوتی ہے اسے مفرور قرار دینا مضحکہ خیز بات ہے
رحمن بھولا بے قصور ہے،سانحہ بلدیہ کی ذمہ دار پارٹی قیادت ہے،اہلیہ رحمن بھولا
کراچی کی تاریخ میں ہولناک آتشزدگی کے ذمہ دار اور مرکزی ملزم عبدالرحمن عرف بھولا کی گرفتاری کے بعد اہلخانہ بھی منظرعام پر آگئے تھے ، اہلیہ رحمن بھولا نے شوہر کو بے قصور اور پارٹی قیادت کو قصور وار قرار دیا،عبدالرحمن عرف بھولا کی اہلیہ نے بتایا کہ رحمان بھولا کی گرفتاری سے ایک دن قبل آخری رابطہ ہوا تھا ،دوسرے روز کال کرنے پر رابطہ نہ ہوا تو ہوٹل انتظامیہ سے معلوم کیا جہاں سے پتہ چلا کہ بنکاک میں واقع ہوٹل پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے ، اہلیہ نے بتایا کہ سانحہ بلدیہ کے تحقیقات میں عبدالرحمان عرف بھولا کا نام آنے پر پارٹی نے ہی خاموشی سے ادھر ادھر ہونے کو کہا تھا، واقعے کے بعد کئی ماہ تک عبدالرحمان عرف بھولا گھر پر ہی رہے، بعد میں عبدالرحمن کو کچھ عرصہ نائن زیرو پر پارٹی نے روپوش رکھوایا، وہاں انہیں کمرہ بھی دیا گیا تھا، رحمان کے بیرون ملک جانے کا بندو بست بھی ہم نے خود ہی کیا تھا، رحمان بھولا پاکستان سے ملائیشیا گیا ، ایک ماہ چھ روز قبل وہ ملیشیا سے تھائی لینڈ گئے تھے، اہلیہ نے بتایا کہ رحمن بھولا ہر ماہ 30سے 35ہزار روپے اخراجات کیلئے ہمیں بھیجتے تھے، سانحہ بلدیہ فیکٹری کے وقت رحمان عرف بھولا ایم کیو ایم بلدیہ سیکٹر کا انچارج اور ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں