قائد اعظم اور اسلامی سماجی انصاف
شیئر کریں
رضوان احمد
قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کا دورہ مارچ 1948 ءمیں کیا تو وہ اچھی طرح آگاہ تھے کہ تصور پاکستان کے خلاف کچھ تحریکیں برملا بھی کام کررہی ہیں اور کچھ درپردہ بھی۔ ڈھاکا کے جلسہ عام میں قائد اعظم ؒ نے کہا کہ” میں صاف صاف اورا علانیہ آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے گرد کچھ بیرونی ایجنٹ بھی کام کررہے ہیں۔ جن کو باہر سے مدد مل رہی ہے۔ آپ ہوشیار نہ رہے تو ان کی حرکتیں آپ کی صفوں میں انتشار پیدا کردیں گی۔ میں آپ کو دوبارہ خبردار کرتا ہوں کہ ان لوگوں کے جال میں نہ آئیے گا جو پاکستان کے دشمن ہیں۔ بدقسمتی سے آپ کی صفوں میں ”ففتھ کالم“ (اغیار کے کارندے) موجود ہیں اور یہ کہتے ہوئے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہی کے بھیس میں ہیں۔ مجھے اعتماد ہے کہ آپ کی صوبائی حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت ان کے معاملے میں سخت ترین قدم اٹھائے گی، ان سے انتہائی بے دردی کے ساتھ نمٹے گی اس لیے کہ یہ لوگ زہر ہیں۔“ یہ پس منظر ہے قائد اعظمؒ کے ذہن و فکر کا جس نے سارے بیرونی ”ازموں“ سے پاک صرف اسلام کو قوم کا ہادی سمجھا اور ہماری زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات قرار دیا۔ فروری 48 ءمیں فرمایا۔
”میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات انہیں زریں قوانین کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے عظیم المرتبت مقنن اعظم پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے مقرر کیے ہیں۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچی اسلامی تصورات و اصولوں پر رکھنی ہیں۔“ اسی ماہ میں پاک افواج کو یوں تاکید کی کہ ”آپ نے بہت سی جنگیں دور دراز کے عالمی محاذوں پر لڑی ہیں تاکہ دنیا کو فاشسٹوں کے خطرے سے نجات دلوائیں اور جمہوریت کے پھولنے پھلنے کے لیے محفوظ رکھیں۔ اب آپ کو خود انصاف یا اسلامی نظام عدل اور مساوات انسانی کے قیام و ترقی کا محافظ و نگہبان بننا ہوگا۔“
قیام پاکستان سے چار سال قبل دہلی میں سامعین کو انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ ”خاصی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں‘ بڑی شرانگیزیاں کی جارہی ہیں کہ کیا پاکستان اسلامی مملکت بننے والا ہے؟ اور پھر اس کے جواب میں انہوں نے خود ایک سوال کیا کہ کیا پاکستان کو اسلامی مملکت کے قیام کے لیے بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہے؟ کیا ایسے سوال کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ آپ خود اپنے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ صادر کررہے ہیں؟
قیام پاکستان کے چند ماہ بعد امریکا کے لیے ایک تقریر نشر کرتے ہوئے قائد نے فرمایا تھا کہ ”دستور ساز اسمبلی ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنے والی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آئین مرتب ہوکر آخری صورت کیااختیار کرنے والا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ جمہوری طرز کا ہوگا۔ جو اسلام کے بنیادی اور لازمی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ آج بھی وہ روز مرہ کی زندگی میں اسی طرح نافذ العمل ہےں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کی مقصدیت نے ہمیں جمہوریت کی تعلیم دی ہے اور مساوات انسانی کی تعلیم دی ہے۔ ہم لوگ وارث ہیں ان ہی شاندار روایات کے اور ہم پاکستان کا آئین مرتب کرنے والوں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا پورا احساس رکھتے ہیں اور بیدار ہیں۔“
قیام پاکستان کے بعد ملت کو اپنی متعین راہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش اغیار کی طرف سے کی جاتی رہے اور ہمیشہ قائد اعظم ؒ کی تقریر کے کچھ الفاظ بلا سیاق و سباق کے توڑ مروڑ کر پیش کیے جاتے رہے۔ قائد اعظم ؒ کا قول یوں بیان کیا کہ ”اب مسلمان ‘ مسلمان نہ رہے گا اور ہندو ہندو نہ رہے گا“ اور آگے کا حصہ جو شہری حقوق کے بارے میں تھا اس کو حذف کرکے پاکستان کو لادینی ریاست (سیکولر اسٹیٹ) بنانے کی دلیل پیش کرتے رہے۔جب یہ حربہ کامیاب نہ ہوا تو نیا فتنہ اٹھایا کہ قائد اعظم ؒ اس ملک کو اسلامی سوشلسٹ اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے اور اسلامی سوشلزم ان کا عقیدہ تھا۔ اس میں تحریک پاکستان کے کچھ زعماءبھی شامل ہوگئے۔ اسلامی سوشلزم کے لفظ کو قائد اعظم ؒ کی طرف منسوب کیا گیا جو غالباً مارچ 1948 ءکی چاٹگام والی تقریر سے ماخوذ ہے۔ اگرچہ آپ کو قائد اعظم ؒ کے ذہن و فکر کا پورا اندازہ ہوگا مگر آئیے اس تقریر کے اس فقرہ یا لفظ کا تجزیہ بھی کرلیا جائے جس پر حریفوں کی ساری کائنات قائم ہے اور جو بار بار پیش کی جاتی رہی ہے۔ قائد اعظمؒ نے تقسیم براعظم سے قبل بھی اور بعد بھی بار بار زور دے کر کہا کہ ”میں اس جمہوری اسلامی اسٹیٹ کو مانتا ہوں جو اسلامک سوشل جسٹس پر مبنی ہو“ یہ ان کے ذہن و فکر کی اساس ہے اور اسے بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حکومتوں کے جو مختلف نظام دنیا میں پائے جاتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کی نقل کرلینے کا بھی رجحان ان کے اندر بالکل نہیں تھا اور نہ وہ اس کی طرح مائل تھے کہ کسی ایک کو لے کر اسے مشرف بہ اسلام کرلیا جائے۔
قائد اعظمؒ نے چاٹگام کی تقریر میں یہ کہا تھا کہ ”آپ میرے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ہمنوائی کرتے ہیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔ سوشل جسٹس اور اسلامی سوشلزم کوئی اور ازم نہیں جس میں انسانی مساوات اور اخوت کی تاکید ہے اس طرح آپ میرے خیالات کی ہمنوائی کرتے ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ تمام لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ یہ تقریر اس سپاس نامے کے جواب میں ہوئی تھی جس میں پہلے بار ”اسلامی سوشلزم“ کا لفظ سپاس نامہ پیش کرنے والے نے استعمال کیا تھا۔ قائد اعظم ؒ نے خود اس لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اور نہ ہی یہ لفظ ان کی ایجاد ہے‘ یہ کہنا کہ قائد اعظم ؒ اسلامی سوشلزم پر عقیدہ رکھتے تھے یہ سراسر لغو اور جھوٹ ہے۔ عقیدہ رکھنا تو درکنار انہوں نے تو زندگی بھر کبھی اس لفظ کو استعمال ہی نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اسلامی سوشل جسٹس کا لفظ استعمال کرتے تھے ”کوئی اور ازم نہیں“ کا جملہ جو قائد اعظمؒ کی تقریر میں موجود ہے حذف کرکے اب تک پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انہوںنے اسلام کے مقابلہ پر ہر ”ازم“ کو واضح طور پر مسترد کردیا تھا۔ چاٹگام والی تقریر کے تین ہی ماہ بعد اسٹیٹ بینک کے ادارہ تحقیقات میں یکم جولائی 1948 ءکی تقریر میں قائد نے قوم کو مسائل کا فیصلہ اپنی مخصوص ضرورتوں کی روشنی میں کرنے کی کچھ واضح ہدایات کی تھیں اور نکات پیش کیے۔ ان کے ذہن میں معاشی پالیسی کا کیا خاکہ تھا ان نکات سے اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ قائد نے فرمایا تھا کہ ”میری نظریں بڑی توجہ کے ساتھ ان خدمات پر لگی رہیں گی جو بنکاری کو معاشی و معاشرتی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ترقی دینے کے لیے آپ کا ادارہ تحقیقات انجام دے گا‘ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ناقابل حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر لوگوں کو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ دنیا جس تباہی سے دوچار ہوگئی ہے، اب کوئی معجزہ ہی اس کو بچائے تو بچا سکتا ہے۔ یہ نظام آدمی آدمی کے درمیان عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے میں اور بین الاقوامی سے فتنہ و فساد کو مٹانے میں ناکام ہوچکا ہے بلکہ اس کے برعکس صورت تو یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے عرصہ میں دو عالمگیر جنگیں جو برپا ہوئیں ان کی ذمہ داری بہت بڑی ہحد تک اسی نظام کے سر ہے۔ مغربی دنیا مشینی اور صنعتی قابلیت سے بہرہ مند تو ہے مگر اس کے باوجود آج انسانی تاریخ کے بدترین خلفشار میں مبتلا ہے۔ ہمارا مقصد خوشحال و مطمئن قوم پیدا کرنا ہے۔ اس لیے مغرب کے معاشی نظریہ اور نظام کو اختیار کرنا ہمارے اس مقصد کی تکمیل میں ہر گز معاون و مددگار نہیں ہوگا۔ ہمیں مستقبل سنوارنے کے لیے لازماً خود اپنے طریقے پر عمل کرنا ہے اور دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہے جو مساواتِ انسانی اور عدل ِاجتماعی کے سچے اسلامی نظریہ پر قائم ہو۔ اس طرح ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنا مشن بھی پورا کریں گے اور انسانیت کو امن و سکون کا پیغام بھی دے سکیں گے۔ جو بنی آدم کو تباہی سے بچانے کا تنہا ضامن اور انسانی فلاح و بہبود اور مسرت و خوش حالی کا واحد امین ہے۔“
قائد اعظمؒ کی یہ تقریر آخری ہے اور بہت اہم ہے۔ اس میں انہوں نے خاص طور سے معاشی نظام پر زور دیا ہے۔ سوشلزم اور اسلامی سوشلزم کی ذرا بھی اہمیت ان کی نظر میں ہوتی تو یقینا اس اصطلاح کو پیش کرتے لیکن اس کا سرسری تذکرہ تک نہ کیا۔