ایم کیوایم ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی میں اختیارات کی کھینچا تانی
شیئر کریں
کراچی کی ترقی وتعمیر کے لیے پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کا ایک اتحاد قائم ہونے کی نہ صرف خوشخبری سنا دی گئی ہے بلکہ اس حوالے سے ایک کمیٹی کے قیام کی تصدیق بھی کردی گئی ہے۔ پاکستانی سیاست کے لیے بالکل اجنبی اور بڑی حد تک پراسرار پیش رفت کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس حوالے سے ابھی سے اندازے قائم کرنا شروع کردیے گئے ہیں۔ کراچی کے سیاست پر گزشتہ چار دہائیوں سے گہری نگاہ رکھنے والے ایک ماہر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد بمشکل چند ماہ کی عمر بھی نہیں پا سکے گا۔اس ضمن میں ابتدا سے ہی کچھ چونکا دینے والے حقائق سامنے آگئے ہیں جو اس اندیشے کو تقویت دیتے ہیں۔ اگر چہ اس اتحاد کو تین جماعتوں کا اتحاد قرار دیا جارہا ہے مگر اس حوالے سے قائم کمیٹی میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق وفاق اور سندھ کے تین تین نمائندے شامل کیے گئے ہیں۔ کمیٹی کی سربراہی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پاس ہے جبکہ صوبائی وزراء ناصر شاہ اور سعید غنی کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی نے اپنے جن تین نمائندوں کو کراچی کی تعمیر وترقی کے نام پر اس کمیٹی میں شامل کیا ہے اُن میں سے سعید غنی کے علاوہ باقی دو کا تعلق سرے سے کراچی سے ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف وفاق کے نام پر جن تین نمائندوں سے کمیٹی کو رونق بخشی گئی ہے، اُن میں وفاقی وزراء اسدعمر ، علی زیدی اور امین الحق کو شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے اسد عمر کا حلقہ انتخاب اسلام آباد ہے۔ جبکہ باقی دو علی زیدی اور امین الحق کا معاملہ بھی کسی مضبوطی کا تاثر قائم نہیں کرتا ۔ حیرت انگیز طور پر کراچی کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ایم کیوایم کا ایک ہی نمائندہ امین الحق کی صورت میں وفاقی حکومت کی طرف سے شامل کیا گیا ہے ۔ اس طرح اگر غور کیا جائے تو یہ وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین ایک مفاہمت تو قرار دی جاسکتی ہے مگر یہ کسی بھی طرح سے تین جماعتی اتحاد کی آئینہ دار نہیں ۔ ظاہر ہے کہ کراچی کی سب سے بڑی قوت ہونے کے باوجود ایم کیوایم ماضی کے بوجھ اور مقدمات کی ماراماری میں اس قابل ہی نہیں رہی کہ وہ اپنی جماعت کی بھی ٹھیک طرح سے نمائندگی کرسکے چہ جائیکہ وہ کراچی کی نمائندگی مضبوط طریقے سے اس کمیٹی میں کر سکے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ سنجیدہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اتحاد کراچی کے رفیقوں کے مابین نہیں بلکہ کراچی کے فریقوں کے مابین ہوا ہے۔ ان قوتوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف کراچی پر قبضے کی رسہ کشی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا یہ قوتیں مل کرکراچی کے آنسو کیسے پونچھ سکیں گے۔ اگر یہ اس حوالے سے اتنے مخلص ہوسکتے تو یہ نوبت ہی پیش نہ آتی۔ اس ضمن میں کراچی کے فہمیدہ حلقوںمیں یہ سوال بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ ان تینوں جماعتوں کے درمیان یہ اتحاد خود ان جماعتوں کی اپنی خواہش سے قائم نہیںہوا بلکہ اس کے پیچھے طاقتور حلقوں کا دباؤ یا تحریک کا عمل دخل ہے۔ ایسی صورت میں بجائے خود اس پیش رفت کا مستقبل اندیشوں کے گرداب میں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی اس اتحاد کو قائم ہوئے چوبیس گھنٹے بھی ہی نہیں ہوئے کہ ان تینوں جماعتوں کی طرف سے ایسے بیانات شروع ہوگئے ہیں جو کسی بھی طرح سے اس اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے اچھی خبر نہیں سناتے۔ تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں نے ابھی سے کہنا شروع کردیا ہے کہ پیپلزپارٹی کو ایک موقع دیا گیا ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی نے اپنے اختیارات کو جتلاتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ کمیٹی کا کردار محض مشاورتی ہے۔ فیصلہ کن طاقت سندھ حکومت ہی ہے۔
اس ضمن میں ترجمان سندھ حکومت مرتضی وہاب نے واشگاف طریقے سے واضح کیا کہ سندھ میں کام صوبائی حکومت ہی کرے گی۔ جبکہ کراچی کی نمائندہ سیاسی قوت ہونے کی دعوے دار ایم کیوایم نے ٹھیک اسی روز اپنے پرانے مطالبے یعنی نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کو دہراتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ جب تک کراچی کے اصل نمائندوں کو اختیارات نہیں دیے جائیں گے کراچی کے اصل مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان حالات میں کراچی کی ترقی وتعمیر کے لیے قائم تین جماعتی اتحاد کے مستقبل کے بارے میں اندازا لگانا بالکل بھی دشوار نہیں۔