بحریہ ٹاؤن کیس، وفاق اور صوبے کی لڑائی میں ہم نہیں پڑیں گے ، سپریم کورٹ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن عمل در آمد کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کراچی کیلئے تعین کردہ زمین سے زیادہ زمین پر قبضے کا نوٹس لے لیا ہے اور سروے آف پاکستا ن سے حد بندی سے متعلق نئی رپورٹ طلب کرلی ہے ۔عدالت نے قراردیا ہے کہ ہم زمینوں پر قبضوں ،بحریہ ٹاون کی جمع شدہ رقم کے حصول کیلئے وفاق اور صوبہ سندھ کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کررہے ہیں جو مناسب وقت پر سنایا جائے گا اور تحریری فیصلے میں تمام نکات کو مدنظررکھا جائے گا۔جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوڈی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھاکہ تحریری فیصلے کیلئے سروے آف پاکستا ن سے حد بندی سے متعلق نئی رپورٹ منگوائیں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیاکہ کیا بحریہ ٹاون نے اقساط جمع کرائی ہیں؟ تو بحریہ ٹان کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھاکہ بحریہ ٹاون نے اقساط کے علاوہ ایڈوانس رقم جمع کرائی ہے ۔سپریم کورٹ کے اکانٹ میں 57ارب سے زائد رقم جمع کرائی ہے حالا نکہ جولائی2020تک 32ارب جمع کرانے تھے۔ ہم نے کوڈ 19کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے درخواست دی ہے کہ ریلیف دیا جائے۔جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ یہ بات قبل از وقت ہے۔ آ پ نے رقم اقساط سے زیادہ ویسے ہی جمع کرائی ہے۔سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر خبریں آرہی ہیں کہ آپ نے مقررہ زمین سے زیادہ زمین اپنے پاس رکھی ہے۔بحریہ ٹاون کے وکیل نے بتایا کہ ہمیں 16ہزار 8سو 96ایکڑ زمین الاٹ کی گئی جو مکمل نہیں ملی۔سوشل میڈیا پر حقائق پر مبنی بات نہیں کی جاتی، اس پر الگ سے جواب داخل کرونگا۔سندھ حکومت کو ہدایات دی جائیں کہ ہماری بقیہ زمین ہمیں دی جائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیوں نہ اس معاملے پر سروے کرایا جائے۔سپارکو سمیت دیگر اداروں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ سروے کرے اورپورٹ جمع کرائے۔سروے کرانے سے واضح ہوجائے گا کہ آپ کے پاس کتنی زمین ہے۔ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مقرر کردہ زمین سے زیادہ زمین آپ کے پاس ہے یا نہیں۔اس دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ اگر عدالت سروے کرانے کا حکم دیتی ہے تو اس میں وفاقی اداروں کو شامل کیا جائے اوربحریہ ٹاون کی جمع کرائی گئی رقم آرٹیکل 78 کے تحت وفاق کو دی جائے اس حوالے سے درخواست پہلے سے جمع کرائی جا چکی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل سندھ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت کی طرف سے کمیٹی بنانے کی تجویز دی گئی تھیاس کمیٹی کی تشکیل اور اس میں وفاق کی شمولیت پر صوبہ سندھ کوشدید اعتراض ہے۔ جب بھی صوبہ اپنی زمین فروخت کرتا ہے تو کنسولیڈیڈ اکانٹ میں جمع ہوتی ہے۔ کمیٹی میں سیکریٹری پلاننگ کی موجودگی سمجھ سے باہرہے اورکمیٹی میں وفاق کی جانب سے نامزد کردہ شہری پر بھی تحفظات ہیں۔ اس پر جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھاکہ اگر شہری وفاق کا نمائندہ بنا کر کمیٹی میں شمولیت کا حکم بنچ کرے تو فریقین کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟ اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جسٹس فیصل عرب کی اس بات پر رضامندی کا اظہار کردیاایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھاکہ سندھ میں کونسا ترقیاتی منصوبہ بنانا ہے یہ اختیار وفاق کو سونپنے پر اعتراض ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا یہ اختیار کمیٹی اور عدالت کو دے سکتے ہیں؟ ہم فیصلہ کرتے وقت سندھ کے نکتے کو سامنے رکھیںگے۔ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھاکہ آئے روز شرح سود گرتی جارہی ہے۔ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ اس پیسے کا درست انداز میں استعمال ہو۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھاکہ بحریہ ٹاون کے حوالے سے حاصل شدہ رقم جاری منصوبوں پر استعمال نہیں ہو سکتی۔یہ اصول وفاق اور صوبے پر بیک وقت لاگو ہوگا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ وفاق نے ابھی تک ھ ہمیں 334ارب ادا نہیں کئے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ وفاق اور صوبہ آپسی اختلافات اس مقدمے سے دور رکھے۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھاکہ حال ہی میں آڈیٹر جنرل نے وفاق میں اربوں روپے کے گھپلوں کا ذکر کیا ہے۔ وفاق اور صوبے کی آپسی لڑائی میں ہم نہیں پڑیں گے۔اس دوران وفاقی حکومت نے رقم مانگنے کے بجائے عدالتی کمیٹی کے ذریعے خرچ کرنے کی استدعا کر تے ہوئے کہاکہ سابق سپریم کورٹ جج کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جائے، اٹارنی جنرل کاکہنا تھاکہ کمیٹی میں سیکرٹری پلاننگ، چیف سیکرٹری سندھ ، وفاق اور سندھ کے نامزد ایک ایک شہری بھی شامل ہوں، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہہ تمام رقم سندھ کی ترقی پر شفاف انداز میں خرچ کی جائے۔ اس دوران سندھ حکومت نے کمیٹی میں وفاقی نمائندگان کی شمولیت پر اعتراض کر دیا ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھاکہ سندھ کے ترقیاتی کاموں میں وفاق کی مداخلت قبول نہیں،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ نے بحریہ ٹان کی رقم کو بجٹ میں وصولیوں کا حصہ بنایا ہے، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھاکہ سندھ حکومت کے پاس سینٹری ورکرز کو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں،لیکن سندھ حکومت بحریہ ٹاون کے پیسے ترقیاتی کاموں کے بجائے گاڑیاں خریدنے پر لگانا چاہتی ہے،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کا شروع سے موقف تھا اسے رقم نہیں چاہیے لیکن پیسہ آنا شروع ہوا تو سندھ حکومت رقم مانگنے آ گئی، جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر وفاق اور سندھ میں مسائل چل رہے ہیں۔ اس دوران ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بحریہ کو دی گئی گیارہ ہزار ایکڑ زمین واپس مانگ لی۔ ان کا کہنا تھاکہ سندھ حکومت کو 1.67 ارب دیکر زمین خریدی تھی جو بحریہ کو دیدی گئی،جسٹس فیصل عرب نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل سے کہاکہ عدالت یہ استدعا پہلے ہی مسترد کر چکی ہے تاہم ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی درخواست پر باقاعدہ حکم جاری کرینگے انہوں نے کہاکہ بحریہ ٹاون کی کرونا کی وجہ سے ادائیگی موخر کرنے کی درخواست پر سماعت ستمبر میں ہوگی،سوشل میڈیا کے مطابق بحریہ نے مزید زمین پر قبضہ کر لیا ہے اس لئے بحریہ کو دی گئی زمین کا سروے ہوگا تاکہ حقائق سامنے آ سکیں،اپنے تحریری حکمنامے میں سروے آف پاکستان کو بھی ہدایات جاری کرینگے۔