بی ایل اے کا فدائی یونٹ مجید بریگیڈسفاکانہ دہشت گردی میں ملوث
شیئر کریں
(رپورٹ: باسط علی) پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر دہشت گردی کی مرتکب بلوچ لبریشن آرمی ملک میں طویل عرصے سے تخریبی کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اسی تنظیم نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت پاکستان کے دوست ملک چین کے قونصل خانے پر بھی 23؍ نومبر 2018ء میں حملہ کیا تھا۔ بعدازاں اسی دہشت گرد تنظیم کی جانب سے گوادر میں ’’کوہِ باطل‘‘ پر واقع پرل کانٹیننٹل پر 12؍مئی 2019ء کو ایک حملہ کیا گیا۔گزشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی۔انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس حملے میں بلوچ لبریشن آرمی کے ’’مجید بریگیڈ‘‘کے دہشت گردوں نے حصہ لیا۔مجید بریگیڈ کے نام سے قائم یہ دھڑااسلم عرف اچھو کی سربراہی میں حیربیار مری کی بی ایل اے سے اختلافات کے باعث الگ ہوا تھا ۔انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اسلم اچھو مارچ 2016ء میں سبی کے قریب سنگان کے پہاڑوں میں سیکورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں زخمی ہوگیا تھا۔ جہاں اس کی موجودگی کی اطلاع بی ایل اے کے ہی ایک کمانڈر بزرگ مری نے سیکورٹی فورسز کو دی تھی۔ جس کے بعد بلوچستان حکومت نے اسلم اچھوکی ہلاکت کا اعلان کردیا۔مگر اسلم اچھو زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیااور زخمی حالت میں افغانستان پہنچ گیا۔ ذرائع کے مطابق اسلم اچھو کو افغانستان سے مزید علاج کیلئے نئی دہلی کے ایک ہسپتال پہنچایا گیا۔بھارت میں علاج معالجے اور مکمل صحت یابی کے بعداسلم اچھو نے حیربیار مری سے علیحدگی اختیار کرلی۔ بزرگ مری نے بعد میں حکومت کے سامنے ہتھیار رکھ دیے ۔ بزرگ مری نومبر2019ء میں کوئٹہ کے کلی شابو میں بھائی سمیت قتل ہوئے جس کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان کے اندر ستر کی دہائی میں معروف ہوئی۔ مسلح کارروائیاں شروع کیں۔ یہاں تک کہ مجید نامی شخص نے کوئٹہ کے ہاکی چوکی پر اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم حملے کی کوشش کی۔ جسکی زد میں وہ خود آکر ہلاک ہوا۔ بی ایل اے کا کمانڈر اسلم اچھو انتہائی مطلوب شخص تھا۔ اس نے فدائی حملوں کی حکمت عملی اپنائی جس کیلئے سب سے پہلے اپنے نوجوان بیٹے کو بھیجا جس نے اگست2018ء میں دالبندین میں چینی انجینئرز کی بس پر خودکش حملہ کیا۔چینی قونصل خانے اورگوادر میں پی سی ہوٹل جیسے واقعات نے چین اورپاکستان کو مشکل میں ڈالا۔یہ کمانڈردسمبر2019ء میں قندھار میں بم دھماکے میں چند دوسرے بلوچ کمانڈروں کے ساتھ مارا گیا۔ اس بات میں شک نہیں کہ ان تنظیموں کی پوری کمک افغانستان سے ہورہی ہے اور رہنما بھارت میں ہیں۔ بلوچ مسلح تنظیمیں اور بنگلہ دیش کی عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے سیاسی پروپیگنڈے اورجنگی طریقہ کار میں بھی کافی مماثلتیں بھی ہیں۔