سپریم کورٹ کا ریلوے میں 76 ہزار ملازمین کی چھانٹی کا حکم
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے ریلوے میں 76 ہزار ملازمین کی چھانٹی کا حکم دیدیا، چیف جسٹس گلزار نے کہا کہ ریلوے میں نااہل افراد بھرے پڑے ہیں، جو خود اپنے محکمے سے وفادار نہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریلوے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے اس میں یا تو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔جمعہ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ریلوے ملازمین کی سروس مستقلی کے حوالے سے دائر مختلف درخواستوں کی سماعت کی جس سلسلے میں سیکرٹری ریلوے عدالت میں پیش ہوئے۔دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے سیکرٹری ریلوے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دور میں ریلوے کے کتنے حادثے ہوئے ہیں، آپ سے ریلوے نہیں چل رہی ہے، چھوڑدیں ریلوے، آج سے آپ سیکرٹری ریلوے نہیں ہیں، پرسوں جو نقصان ہوا بتا دیں اس کی ذمہ داری کس کی ہے۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ میں وفاقی ملازم ہوں کہیں اورچلا جاؤں گا۔اس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کرسی میں بیٹھ کر کام کریں، فیلڈ پر جا کر اپنے ملازمین کو دیکھیں، ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریلوے میں ٹوٹل کتنے ملازمین ہیں، اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ ریلوے میں 76 ہزار ملازمین ہیں، 142 مسافر ٹرینیں اور 120 گڈز ٹرینیں چل رہی ہیں، اس وقت کرونا کی وجہ سے 43 مسافر ٹرینیں فعال ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ نے 76 ہزار ملازمین رکھے ہیں، ریلویکا نظام چلانے کیلئے تو 10 ہزار کافی ہیں، آپ کی ساری فیکٹریاں اور کام بند پڑا ہوا ہے تو یہ ملازمین کیا کر رہے ہیں۔سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ 6 نکات پراصلاحات کررہے ہیں، 76 ہزار ملازمین کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔سیکرٹری کے جواب پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے سامنے تقریر نہ کریں ہمیں سب پتہ ہے ریلوے میں کیا ہورہا ہے، ریلوے میں یا تو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔عدالت نے ایک ماہ میں ریلوے سے متعلق آپریشن اور ملازمین کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔