رسول پاک ﷺ کے اخلاق واوصاف
شیئر کریں
مولانا صفی الرحمن مبارک پوری
نبی کریمﷺ ایسے جمال خلق اورکمال خلق سے متصف تھے جوحیطہ بیان سے باہر ہے۔اس جمال وکمال کا اثریہ تھا کہ دل آپ کی تعظیم اورقدرومنزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہوجاتے تھے۔ چنانچہ آپ کی حفاظت اوراجلا ل وتکریم میں لوگوںنے ایسی ایسی فداکاری و جاں نثاری کا ثبوت دیا جس کی نظیردنیا کی کسی اور شخصیت کے سلسلے میں پیش نہیں کی جاسکتی۔آپ کے رفقاءاورہم نشین وارفتگی کی حدتک آپ سے محبت کرتے تھے انہیں گوارانہ تھا کہ آپ کو خراش تک آجائے خواہ اس کے لئے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کاٹ دی جائیں۔ اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادتاًجن کمالات پرجان چھڑکی جاتی ہے ان کمالات سے جس قدر حصہ¿ وافر آپ کوعطا ہوا تھا کسی اورانسان کونہ ملا۔ ذیل میں ہم عاجزی وبے مائیگی کے اعتراف کے ساتھ ان روایات کا خلاصہ پیش کررہے ہیں جن کا تعلق آپ کے جمال وکمال سے ہے۔
حلیہ مبارک
ہجرت کے وقت رسول اﷲﷺ ام معبد خزاعیہ کے خیمے سے گزرے تو اس نے آپ کی روانگی کے بعداپنے شوہر سے آپ کے حلیہ مبارک کا جونقشہ کھینچا وہ یہ تھا ”چمکتا رنگ ،تابناک چہرہ، خوب صورت ساخت ،نہ توندے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی ،جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہو پیکر،سرمگیں آنکھیں ،لمبی پلکیں، بھاری آواز، لمبی گردن ،سفید وسیاہ آنکھیں ،سیاہ سرمگیں پلکیں،باریک اورباہم ملے ہوئے ابرو ،چمکدار کالے بال، خاموش ہوں توباوقار، گفتگو کریں توپرکشش ،دور سے (دیکھنے میں)سب سے تابناک وپرجمال، قریب سے سب سے خوب صورت اورشیریں ،گفتگو میں چاشنی،بات واضح اور دوٹوک ،نہ مختصر نہ فصول ،انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔ درمیانہ قد ،نہ ناٹاکہ نگاہ میں نہ جچے، نہ لمبا کہ ناگوار لگے۔دوشاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ خوش منظر ہے۔رفقاءآپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے کچھ فرمائیں توتوجہ سے سنتے ہیں کوئی حکم دیں تولپک کربجا لاتے ہیں مطاع ومکرم، نہ ترش رو، نہ لغوگو۔
حضرت علی ؓ آپ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔”آپ نہ لمبے تڑنگے تھے نہ ناٹے کھوٹے ،لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے۔ بال نہ زیادہ گھنگریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی۔ رخسار نہ بہت زیادہ پر گوشت تھا نہ ٹھوڑی چھوٹی اورپیشانی پست چہرہ کسی قدرگولائی لئے ہوئے تھا۔ رنگ گوراگلابی آنکھیں سرخی مائل، پلکیں لمبی ،جوڑوں اورمونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی،سینہ پرناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر، بقیہ جسم بال سے خالی ہاتھ اور پاﺅں کی انگلیاں پرگوشت ،چلتے توقدرے جھٹکے سے پاﺅں اٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پرچل رہے ہیں©۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے توپورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ دونوں کندھوں کے درمیان مہرنبوت تھی©۔آپ سارے انبیائ کے خاتم تھے سب سے زیادہ سخی دست اورسب سے بڑھ کرجرا¿ت مند سب سے زیادہ صادق اللہجہ اورسب سے بڑھ کر عہدوپیمان کے پابند وفا۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی جوآپ کواچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہوجاتا۔ جوجان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا۔ آپ کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتاہے کہ میں نے آپ سے پہلے اورآپ کے بعدآپ جیسا نہیں دیکھا۔
حضرت علیؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ کا سربڑا تھا ،جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں، سینے پربالوں کی لمبی لکیر تھی، جب آپ چلتے توقدرے جھک کرچلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتررہے ہیں۔ حضرت جابربن سمرہؓ کا بیان ہے کہ آپ کا دہانہ کشادہ تھا آنکھیں ہلکی سرخی لئے ہوئے اورایڑیاں باریک۔حضرت ابوالطفیل ؓ کہتے ہیں کہ آپ گورے رنگ ،پرملاحت چہرے اورمیانہ قدوقامت کے تھے۔حضرت انسؓ بن مالک کا ارشاد ہے کہ آپ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں اوررنگ چمکدار، نہ خالص سفید،نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سراورچہرے کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے۔ صرف کنپٹی کے بالوں میں کچھ سفیدی تھی اورچند بال سرکے سفید تھے۔
حضرت ابوححیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے ہونٹ کے نیچے عنفقہ (داڑھی بچہ) میں سفیدی دیکھی۔ حضرت عبداﷲ بن بسرکا بیان ہے کہ آپ کے عنفقہ (داڑھی بچہ) میں چند بال سفید تھے۔
حضرت ؓ براءکا بیان ہے کہ آپ کا پیکر درمیانی تھا۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی۔ بال دونوں کانوں کی لوتک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ کوسرخ جوڑا زیب تن کئے ہوئے دیکھا کبھی کوئی چیز آپ سے زیادہ خوب صورت نہ دیکھی۔
پہلے آپ اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے ،اس لئے بال میں کنگھی کرتے تومانگ نہ نکالتے، لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔
حضرت براؓءکہتے ہیں۔ آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوب صورت تھا اورآپ کے اخلاق سب سے بہتر تھے۔ ان سے دریافت کیاگیا کہ نبی ﷺ کا چہرہ تلوار جیسا تھا، انہوںنے کہا۔ ”نہیں بلکہ چاند جیسا تھا۔“ ایک روایت میں ہے کہ آپ کا چہرہ گول تھا۔
ربیعؓ بنت معوذ کہتی ہیں کہ اگر تم حضور کودیکھتے تولگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کودیکھا ہے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بارچاندنی رات میں آپ کودیکھا،آپ پرسرخ جوڑا تھا۔ میں رسول اﷲﷺ کودیکھتا اور چاند کودیکھتا۔ آخر(اس نتیجہ پرپہنچاکہ)آپ چاند سے زیادہ خوب صورت ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ میںنے رسول اﷲﷺ سے زیادہ خوب صورت کوئی چیز نہیں دیکھی۔لگتا تھا سورج آپ کے چہرے میں رواں دواں ہے۔ اورمیں نے رسول اﷲﷺ سے بڑھ کرکسی کوتیز رفتار نہیں دیکھا۔ لگتاتھا زمین آپ کے لئے لپیٹی جارہی ہے۔ ہم تواپنے آپ کو تھکا مارتے تھے۔ اورآپ بالکل بے فکر ۔
حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے کہ جب آپ خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے ۔ایک بارآپ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف فرماتھے۔ پسینہ آیا توچہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں۔ یہ کیفیت دیکھ کرحضرت عائشہؓ نے ابوکبیر ہذلی کایہ شعر پڑھا۔
واذانظرت الی اسرة وجھہ
برقت کبرق العارض المتہلل
”جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تووہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔“ابوبکرؓ آپ کودیکھ کریہ شعر پڑھتے۔
امین مصطفی بالخیر یدعو
کضوءالبدرزایلہ الظلام
”آپ امین ہیں، چنیدہ وبرگزیدہ ہیں ،خیر کی دعوت دیتے ہیں، گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔“
حضرت عمرؓ زہیر کا یہ شعر پڑھتے جوہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیاتھا کہ
لوکنت من شی ءسوی البشر
کنت المضئی للیلة البدر
”اگرآپ بشر کے سوا کسی اورچیز سے ہوتے توآپ ہی چودھویں کی رات کوروشن کرتے۔ پھرفرماتے کہ رسول اﷲﷺ ایسے ہی تھے۔
جب آپ غضب ناک ہوتے توچہرہ سرخ ہوجاتا گویا دونوں رخساروں میں دانہ انارنچوڑدیاگیاہے۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ کا بیان ہے کہ آپ کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں اورآپ ہنستے تو صرف تبسم فرماتے (آنکھیں سرمگیں تھیں) تم دیکھتے توکہتے کہ آپ نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے حالانکہ سرمہ نہ لگاہوتا۔
حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد ہے کہ آپ کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے۔ جب آپ گفتگو فرماتے توان دانتوں کے درمیان سے نورجیسا نکلتا دکھائی دیتا۔
گردن گویا چاندی کی صفائی لئے ہوئے گڑیا کی گردن تھی۔ پلکیں طویل ،داڑھی گھنی ،پیشانی کشادہ ،ابرو پیوستہ اورایک دوسرے سے الگ ،ناک اونچی ،رخسار ہلکے ،لبہ سے ناف تک چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال اوراس کے سوا شکم اورسینے پرکہیں بال نہیں، البتہ بازو اورمونڈھوں پربال تھے شکم اورسینہ برابر ،سینہ مسطح اورکشادہ،کلائیاں بڑی بڑی ہتھیلیاں کشادہ، قد کھڑا ،تلوے خالی، اعضاءبڑے بڑے چلتے توجھٹکے کے ساتھ چلتے، قدرے جھکاﺅ کے ساتھ آگے بڑھتے اورسہل رفتار سے چلتے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر ودیبانہیں چھوا جورسول اﷲﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اورنہ کبھی کوئی عنبر یامشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جورسول اﷲﷺ کی خوشبو سے بہترہو۔
حضرت ابوجحیفہؓ کہتے ہیں کہ میںنے آپ کا ہاتھ اپنے چہرے پررکھا تووہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اورمشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔
آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اورایسی خوشبو محسوس کی گویاآپ نے اسے عطار کے عطردان سے نکالا ہے۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ آپ کا پسینہ گویا موتی ہوتاتھا اورحضرت امؓ سلیم کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے زیادہ عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں۔” آپ کسی راستے سے تشریف لے جاتے اورآپ کے بعدکوئی اور گزرتا توآپ کے جسم یا پسینہ کی خوشبو کی وجہ سے جان جاتا کہ آپ یہاں سے تشریف لے گئے ہیں۔“
آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرنبوت تھی جوکبوتر کے انڈے جیسی اورجسم مبارک ہی کے مشابہ تھی۔ یہ بائیں کندھے کی کری(نرم ہڈی) کے پاس تھی اس پرمسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔