انسانی حقوق کے عالمی دن بھی شامی شہریوں کا قتل عام جاری
شیئر کریں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 13کے مقابلے میں 122 ووٹوں سے حلب سمیت شام میں جنگ بندی کا مطالبہ
رائے شماری روس اور اسد حکومت کے لیے اس پیغام کے مترادف ہے کہ وہ یہ قتل و غارت گری بند کر دیں،امریکا
قرار دادکے نتیجے میں شام کی صورتِ حال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی کی توقع غیر حقیقت پسندانہ ہوگی،روس
ابو محمد
دنیا بھر میں گزشتہ روز انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جو ہر سال اقوام متحدہ کے تحت منایا جاتا ہے ۔ 10 دسمبر کو منائے جانے والے اس دن کا اس برس عنوان تھا” کسی نہ کسی کو حق دلانے کے لیے آج اٹھ کھڑے ہوں“۔
دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق کا مطلب شہری و سیاسی حقوق یعنی زندگی اور آزادی کے حق کو گردانا جاتا ہے۔ ان ہی میں جنسی مساوات، آزادیِ اظہارِ رائے، قانونی تحفظ، آزادیِ مذہب اور تنظیمی آزادی بھی شامل ہے تاہم مملکت شام میں یہ دن بھی آگ اور خون کی نذر ہوگیا۔ایک طرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 13کے مقابلے میں 122 ووٹوں سے منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں شامی شہر حلب سمیت ملک بھر میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ متاثرین تک انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔دوسری جانب جنرل اسمبلی کی قرارداد کے بعد شام میں جنگ میں مزید شدت کے ساتھ بمباری کی گئی اور شہریوں کے جینے کا حق بے دریغ چھینا گیا۔مقامی ذرائع سے آنے والی ایک اطلاع میں بتایا گیا کہ حلب میں حکومتی افواج کے زیر قبضہ ایک علاقے سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں کے خلاف نہ صرف زمینی لڑائی میں شدت آ گئی ہے بلکہ فضائی حملے بھی شدید تر ہو گئے ہیں۔ جسکے باعث ہر طرف آگ اور خون ہے اور لاشیں بکھری ہوئی ہیں ۔شامی فوج کا دعویٰ ہے کہ حلب کے تقریباً نوّے فیصد علاقے کو وہ اپنے کنٹرول میں لا چکی ہے اور ا±س کی کوشش ہے کہ جلد از جلد اِس پورے شہر پر ا±س کا کنٹرول بحال ہو جائے۔شام کی اسدی حکومت کا قریبی حلیف روس گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے شامی افواج کو فوجی مدد فراہم کر رہا ہے اور عام شہریوں اور شامی مزاحمت کاروں پر وحشیانہ بمباری کرکے تباہی و بربادی پھیلا رہا ہے ۔ ادھرشام میں تقریباً چھ سال سے جاری جنگ میں فائر بندی کے حوالے سے قرارداد کا مسودہ کینیڈا کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ اس رائے شماری کے دوران چھتیس ملکوں نے اپنا حقِ رائے دہی محفوظ رکھا۔ واضح رہے کہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی پاسداری لازمی نہیں ہوتی لیکن یہ سیاسی اعتبار سے وزن رکھتی ہیں۔
اسی طرح کی ایک قرارداد چند روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تھی، جس میں شمالی شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں سات روز کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم روس اور چین نے اپنے ویٹو کے ذریعے عالمی سلامتی کونسل میں وہ قرارداد منظور نہیں ہونے دی تھی۔ تب روس نے اپنے اس اقدام کے جواز میں کہا تھا کہ جنگ بندی کے وقفے سے باغیوں اور انتہا پسندوں کو اپنی قوت مجتمع کرنے اور نئے سرے سے صف بندی کا موقع مل جائے گا۔ اسپین، مصر اور نیوزی لینڈ کی جانب سے پیش کردہ ا±س قرارداد کی ناکامی کے بعد سے ہی یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اب مغربی دنیا اس طرح کی کوئی قرارداد جنرل اسمبلی میں پیش کرے گی، جہاں کوئی ملک ا±سے ویٹو نہیں کر سکتا۔
جمعے کو نیویارک میں رائے شماری سے قبل اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سیمنتھا پاور نے کہا، ’یہ رائے شماری روس اور اسد حکومت کے لیے اس پیغام کے مترادف ہے کہ وہ یہ قتل و غارت گری بند کر دیں‘۔ اقوام متحدہ میں روسی سفیر وتالی چ±رکین نے کہا، ’یہ توقع کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہو گا کہ اس رائے شماری کے نتیجے میں شام کی صورتِ حال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی آ جائے گی‘۔اقوام متحدہ میں روسی سفیر وتالی چ±رکین کے مطابق شام میں جنگ بندی کے وقفے سے انتہا پسندوں کو اپنی قوت مجتمع کرنے اور نئے سرے سے صف بندی کا موقع مل جائے گا۔
شام میں فوری جنگ بندی اور حلب کے تمام علاقوں کا محاصرہ ختم کرنے کے مطالبے پر مبنی قرارداد کی حمایت میں ایک سو بائیس ممالک نے ووٹ ڈالے، 13ملکوں نے مخالفت کی جب کہ 36 ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
اس موقع پر جنرل اسمبلی میں کینیڈا کے مندوب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حلب میں خوراک کا سنگین بحران ہے اور لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہیں۔ اگر اب بھی عالمی برادری نے ذمہ داری کا ثبوت نہ دیا تو حلب ایک بڑے قبرستان میں تبدیل ہوسکتا ہے۔کینیڈین مندوب نے حلب میں اسپتالوں اور شہری آبادیوں پر بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسپتالوں اور شہریوں کوتحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں ںے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ شام میں جنگ سےمتاثرہ فوجی علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کی جا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ میں صدر بشارالاسد کے مندوب بشارالجعفری نے کینیڈا کے مسودہ قرارداد پر کڑی تنقید کی اور اپنے حامیوں کے ساتھ مل کرعملی بحث کی آڑ میں قرارداد کو ناکام بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔
بشارالجعفری نے الزام عاید کیا کہ مغربی ممالک مل کر شامی قوم کے مسائل میں اضافے کی سازش کررہے ہیں۔ شام میں دہشت گردی کے لیے آنے والے غیرملکی جنگجو بھی مغرب کے حمایت یافتہ ہیں۔ کینیڈا سمیت 100 ملکوں کے دہشت گرد شام میں لڑائی میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسد حکومت غیر مشروط طور پر کسی غیرملکی دباو¿ کے بغیر شامی شہریوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ مگر ہم کوئی غیرملکی ایجنڈا قبول نہیں کریں گے۔یورپی یونین کے مندوب نے اپنے خطاب میں اسد رجیم سمیت شام میں جنگی جرائم کے مرتکب عناصر کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے حلب سمیت جنگ سے متاثرہ تمام شامی شہروں میں فوری امداد کی فراہمی کی بھی اپیل کی اور کہا کہ متاثرہ شہریوں تک امداد کی رسائی روکنے والے انسان دشمن ہیں۔ یورپی یونین کے مندوب نے شام کے تنازع کے پرامن اور منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تنازع کو سیاسی انداز میں حل کرنے کا مطالبہ کیا۔
روس کے مشیر فیتالی چورکین نے کہا کہ ان کا ملک شام میں خانہ جنگی کے خاتمے اور تنازع کےسیاسی اور سفارتی حل کے لیے کوشاں ہے مگر کوئی بھی غیر متوازن کوشش کوشش اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب شام میں جاری دہشت گردی پر بات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ مل کر شام میں امن بات چیت کی بحالی کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات چیت اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔ اس پر امریکا اور روس دونوں کا اتفاق رائے ہے۔امریکا نے کینیڈا کی قرارداد کی حمایت کی مگر ساتھ ہی کہا کہ یہ قرارداد مثالی نہیں ہے تاہم موجودہ بحران کے حل کی طرف اہم پیش رفت ہے۔
امریکی مندوب کا کہنا تھا کہ حلب کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں ملوث روس اور اسد رجیم کو نہتے شہریوں پر مظالم تسلیم کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی مسلسل وارننگ کے باوجود حلب میں امدادی کارروائیوں کی بحالی میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ امریکی مندوب نے سوال اٹھایا کہ حلب سے نقل مکانی کرنے والے شہری اغواءکیوں کیے جا رہے ہیں۔