پاک فوج کے سپہ سالاروں کی مختصر کہانی
شیئر کریں
کرنل (ر) اشفاق حسین
گزشتہ بیس سالوں میں جنرل راحیل شریف پاک فوج کے پہلے سربراہ ہیں جو اپنے مقررہ وقت پر باعزت طریقے سے رخصت ہو رہے ہیں،یہ عجیب بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد فو ج کے زیادہ تر سپہ سالاروں سے کوئی نہ کوئی روایت منسوب ہوتی رہی ہیں کن میں کچھ سچی تھیں کچھ جھوٹی پاکستانی فوج کے سات سپہ سالار کمانڈر انچیف کہلاتے تھے کو زیادہ باوقار عہدہ ہے ، امریکہ کا منتخب صدر بربنائے عہدہ سویلین ہونے کے باوجود کمانڈر انچیف کہلاتا ہے اور بری بحری اور فضائی افواج اس کے ماتحت ہوتی ہیں
1972اس وقت کے وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو نے کمانڈر انچیف کا عہدہ ختم کرکے جنرل ٹکا خان کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا،اس وقت سے فوج کے سبھی سپہ سالار چیف آف آرمی اسٹاف کہلاتے ہیں،پاکستان کے پہلے کمارنڈر انچیف سر فرینک مسرری تھے اور دوسرے کمانڈر انچیف ڈگلس گریسی جو 11فروری1948کو اس عہدہ پر فائز کیے گیے یہ وہ وقت تھا جب کشمیری عوام نے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی ہوئی تھی اور انہوں نے کشمیر کے ڈوگرہ حکمران راجہ ہری سنگھ کابھارت سی الحاق کا فیصلہ مسترد کردیا تھا پاکستان سے بھی مجاہدین کی ایک بڑی تعداد کشمیریوں کے ساتھ شامل ہوگئی تھی اب یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کمانڈر انچیف کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیریوں مدد کے لئے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیج دیںلیکن انگریز کمانڈر انچیف نے ان کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا،
یہ بات بالکل غلط ہے اور اس سے قائد اعظم محمد علی جناح کی توہین کا پہلو بھی نکلتا ہے کیا قائد اعظم جیسی قد آور شخصیت سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ان کا حکم نہ ماننے والے کمانڈر انچیف کو ایک دن کے لیے بھی برداشت کرتے حقیقت دراصل یہ ہے کہ قائد اعظم نے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیجنے کا حکم ضرور دیا تھا اس وقت سر فرینک مسرری کمانڈر انچیف تھےلیکن رخصت پر تھےان کی جگہ ڈگلس گریسی قائم مقام کمانڈر انچیف کے فرائض انجام دے رہے تھے، پاک فوج کسمپرسی کی حالت میں تھی برطانوی فوج میں سے جن فوجیوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تھا وہ انفرادی طور پر خون کے دریا عبور کرکے پاکستان پہنچ رہے تھےاور ایک بریگیڈ بھی منظم نہ ہوسکا تھا راولپندی میں پنجاب رجمنٹ کی صرف ایک بٹالین فوج موجود تھی اوروہ بھی سیلابوں کو تباہ کارہوں سے نبردآزماہونے کےلیے سول انتظامیہ کی مدد میں مصروف تھی اور راولپنڈی سے گجرات تک پھیلی ہوئی تھی،جنر ل ڈگلس گریسی نے اس صورتحال پر قائد اعظم کو مفصل بریفنگ دی اس پر قائد اعظم نے خاموشی اختیار کی ڈگلس گریسی قائد اعظم کی حکم عدولی کے مرتکب ہوتے تو تین سال تک اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے تھے وہ 16جنوری1951تک اپنے عہدے پر فائز رہےاور انہوں نے کمان پہلے مسلمان جنرل محمد ایوب خان کے حوالے کی وہ فوج کے واحد سپہ سالار تھےجو فیلڈ مارشل کے رینک تک پہنچے،27اکتوبر1958کو انہوں نے فوج کی کمان جنرل موسیٰ کے حوالے کی وہ 18جون1966تک اس عہدے پر فائز رہے ،ان کے جانشین تھے جنرل محمد یحیٰ ان ہی کے دور میں سانحہ مشرقی پاکستان ہوا،عوام کے غیض وغضب کے پیش نظر انہوں نے استفعیٰ دیا اورصدارت ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردی یہ بھی پاکستان کا انوکھا واقعہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو صدر بھی تھے وزیراعظم بھی اور سویلین ہوتے ہوئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی۔انہوں نے 20دسمبر گل حسن کو کمانڈر انچیف مقرر کیا وہ پاک فوج کے واحد سربراہ تھے جنہیں جنرل کے عہدے پر ترقی دئے بغیر فوج کا سربراہ بنایا گیاوہ ایک اور لحاظ سے فوج کے واحد سربراہ تھے کہ وہ غیر شادی شدہ تھے ان دور مختصر ترین تھا انہیں اپنے عہدے پر فائز تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ سول حکومت کے خلاف سازش کے شبہ میں انہیں برطرف کردیا گیا اور 3مارچ1973کو جنرل ٹکا خان کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا گیا ان کے بعد یکم مارچ1976کو پانچ جنرلوں کو سپرسیڈ کرتے ہوئے سنیارٹی میں چھٹے نمبر پر لیفٹننٹ جنرل ضیا الحق کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا سپہ سالار بنایا،انہوں نے 5 جولائی 1977کو ملک میں مارشل لائ لگا دیااور بھٹو سمیت تمام سیاست دانوں کو حفاظتی تحویل میں لے لیابھٹو پر ایک سیاستدان کو قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ چلا جس میں انہیں سزائے موت سنائی گئی،سپریم کورٹ میں اکثریت کی بنیاد پر یہ فیصلہ برقرار رکھا گیا اور کئی غیر ملکی سربراہوں کی بھٹو کو معاف کرنے کی درخواست کے باوجودجنرل ضیا الحق نے انہیں پھانسی چڑھا دیا وہ 17اگست1988تک صدارت کی کرسی پر براجمان رہے
جب ایک فضائی حادثے میں وہ کئی سینئر افسروں سمیت راہی ملکِ عدم ہوئے، اس وقت کے وائس چیف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ نے فوج کی سپہ سالاری سنبھالی اور سینٹ کے چیرمین غلام اسحاق خان کو صدارت سنبھالنے کی دعوت دی،جنرل اسلم بیگ نے اپنے دور میں پاک فوج کی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا اہتمام کیا ان سے پہلے اور ان سے پہلے کبھی فوج نے اتنی بڑی مشقیں نہیں کیں اس وقت پورا جی ایچ کیو بھی فیلڈ میں منتقل کردیا گیا تھا اور پرنسپل اسٹاف افسروں سمیت تمام جنرل خیموں میں رہتے تھے جنرل اسلم بیگ کے بعد چھ سپہ سالار مقرر ہوئے جن میں پانچ کا تقرر وزیراعظم نوازشریف نے کیا تھا،اکتوبر1998میں پھر ایک بار تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایاجب چار سینئر جنرلوں کو سپرسیڈ کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا گیا ،کارگل کی مہم جوئی سے ناراض ہوکر نوازشریف نےپرویزمشرف کی جگہ نے جنرل ضیاالدین بٹ کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تو کارگل کے ذمہ دار جنرلوں نے اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے سول حکومت کا تختہ الٹ دیا اور نوازشریف قید کردیے گئے بعد ازاں جلا وطن ہوئے جلا وطنی کے بعد وزارت عظمی ان کے حصے میںآئی وزیراعظم نوازشریف نے 29نومبر 2013 کو جنرل راحیل شریف کو فوج کا سپہ سالار مقرر کیا،
ان کا گھرانا بہادر سپوتوں پر مشتمل ہے ان کے ماموں میجر عزیز بھٹی نشان حیدر کے اعزاز یافتہ تھےاور ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف نشان حیدربھی ،وہ دراصل پاک کے اعلیٰ ترین اعزاز یافتہ تھے کہ پاکستان ملٹری اکیڈمی سے انہوں نے شمشیراعزاز حاصل کی 1965کی جنگ میں انتہائی جونئر افسر(سیکنڈلیفٹننٹ) ہونے کے باوجودستارہ جرات حاصل کیا اور 1971کی جنگ میں انہیں نشان حیدر کا اعلی ترین اعزاز دیا گیا ان کے ایک اور بھائی کیپٹن ممتاز شریف کو بھی بہادری ایک واقعہ پر تمغہ بصالت دیا گیا اسی واقعے میں ان کے کان اس بری طرح پر زخمی ہوئے تھے کہ طبی بنیاد پربطور کیپٹن انہیں فوج کو خیر باد کہنا پڑا۔
جنرل راحیل شریف 54ویں لانگ کورس کے ساتھااکتوبر1976میں پاس آﺅٹ ہوئے پہلی تقرری ان کے بڑے بھائی کے یونٹ چھ ایف ایف میں ہوئی،میجر کے رینک میں وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کےایڈوجننٹ بھی رہے اور میجر جنرل کے رینک میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈڈ بھی،جرمنی کینیڈا اوردیگر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ان کے عہد میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقین ہوئیںجو پاکستان کے مستقبل میں انتہائی اہم موڑ ثابت ہوں گیں ، سی پیک منصوبے کی کامیابی میں بھی جنرل راحیل شریف کی فراست و بصیرت شامل ہے یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوا تو پاکستان بہت جلدترقی کے منازل طے کرے گا مختصر یہ کہ جنرل راحیل شریف اپنے اہم کارناموں کی بدولت عوام کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں اور اس حال میں فوج سے رخصت ہورہے ہیں کہ عوام برسوں تک انہیں عزت سے یاد کرتے رہیں گے۔