میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی کابینہ کے ابتدائی ارکان

امریکی کابینہ کے ابتدائی ارکان

منتظم
هفته, ۱۹ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

جیفرسن وزیر انصاف، مائیک پومپیو سی آئی اے سربراہ،مائیکل فلن مشیر قومی سلامتی امور
امریکی فوج کے تھری اسٹار جنرل مائیکل فلن کو 2014 میں دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی سے برطرف کیا گیا،ممکنہ طور پر انہیں وزارت دفاع بھی مل سکتی ہے
سی آئی اے کی قیادت کے لیے ایران مخالف 52 سالہ پومپیو کا انتخاب ایک حیران کن امر ہے، تجزیہ کار۔سینیٹر جیف سابق پراسیکیوٹر ہیں،تعیناتی کا سرکاری اعلان جلد متوقع
ابو محمد
امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نگراں انتظامیہ کے ایک ذمے دار نے بتایا ہے کہ ٹرمپ نے قومی سلامتی اور قانون کے نفاذ سے متعلق اپنی ٹیموں کی قیادت کے لیے تین سینئر قدامت پسندوں کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں وزیر انصاف (اٹارنی جنرل)کے منصب کے لیے سینیٹر جیفرسن سیشنز اور امریکی انٹیلی جنس کی مرکزی ایجنسی ( سی آئی اے )کے ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے ایوان نمائندگان کے رکن مائیک پومپیو شامل ہیں۔ذمے دار نے مزید بتایا کہ لیفٹننٹ جنرل مائیکل فلن کو منتخب صدر کے لیے قومی سلامتی کا مشیر چنا گیا ہے۔ اس منصب پر تقرر کے لیے امریکی سینیٹ سے تائید حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔نگراں ٹیم کے رکن کے مطابق تینوں شخصیات نے ٹرمپ کی پیش کش قبول کر لی ہے اور اس کا سرکاری طور پر اعلان کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔
سینیٹر جیف کا شمار ٹرمپ کی مہم کے دوران قریبی رفقا میں ہوتا ہے۔ سینیٹر جیف سابق پراسیکیوٹر ہیں اور وہ 1996 میں سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلِن کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کا عہدہ پیش کیا جسے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلِن نے قبول کر لیا ہے۔واضح رہے کہ سینیٹر جیف اور جنرل مائیکل دونوں ہی اپنے متنازع بیانات کے باعث سرخیوں میں رہے ہیں۔ امریکی فوج کے تھری اسٹار جنرل مائیکل فلن کو 2014 میں دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی سے برطرف کیا گیا۔
وہ فوج کی نوکری چھوڑنے کے بعد سے مسلسل اوباما انتظامیہ کی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کے ناقد تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ امریکی فوجی ہیڈکوارٹرز پینٹاگون پر بھی تنقید کرتے تھے کہ بین الاقوامی اسٹریٹجک امور میں امریکا کو ہزیمت کا سامنا ہے۔ان کا خیال ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو کرش کرنے کے لیے جارحانہ امریکی پالیسی وقت کی ضرورت ہے۔فلن کے ساتھ کام کرنے والے ذمے داران کا کہنا ہے کہ فلن کی برطرفی کے پیچھے ان کی انتظامی صلاحیتوں کے فقدان اور قیادت کے طریقہ کار کا ہاتھ تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شاید وہ پینٹاگون کی سربراہی یعنی وزارت دفاع کا منصب سنبھال لیں لیکن ا±ن کو چند مشکلات کا سامنا ہے اور سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ فوج کی نوکری چھوڑنے کے سات برس بعد ہی وہ وزیر دفاع بنائے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں کانگریس سے استثنیٰ حاصل کرنا ضروری ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر انہیں وزیردفاع کے طور پر بھی نامزد کرتے تو بھی اس سلسلے میں کانگریس سے اجازت حاصل کرنا ممکن تھا کیونکہ سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔
مائیکل فلِن امریکا کے اعلیٰ ترین خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے دو برس تک ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی سی آئی اے کی قیادت کے لیے ایران مخالف 52 سالہ پومپیو کا انتخاب ایک حیران کن امر ہے۔ وہ ایوان نمائندگان میں انٹیلی جنس ، توانائی اور تجارت کی کمیٹیوں کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کمیٹی کا بھی حصہ رہے جس نے 2012 میں لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی سفارتی مشن کے صدر دفتر پر حملے کی تحقیقات کی تھیں۔
پومپیو نے جمعرات کے روز اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ ” میں امید کرتا ہوں کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی سب سے بڑی ریاست کے ساتھ اس تباہ کن معاہدے کو منسوخ کر دیا جائے گا "۔
پومپیو ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہیں اور انہوں نے آرمرڈ کارپس آفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہاروڈ یونی ورسٹی سے انسانی حقوق کے شعبے میں بھی گریجویشن مکمل کیا۔ بعد ازاں پومپیو نے ایک کمپنی قائم کی جو تجارتی اور فوجی طیاروں کے حصے تیار کرتی ہے۔
وزیر انصاف کے منصب پر جیفرسن سیشنز کا انتخاب کر کے ٹرمپ نے اپنے ایسے ہمنوا کو نواز دیا ہے جن کے امیگریشن سے متعلق سخت گیر موقف اور بیانات بعض مرتبہ منتخب صدر ٹرمپ کے بیانات سے ملتے جلتے ہیں۔
سیشنز سرکاری دستاویزات نہ رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو شہریت دینے کے کسی بھی اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔ میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار بنانے کے ٹرمپ کے اعلان پر سیشنز نے بھرپور گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا۔
ریپبلکن پارٹی کی قومی کمیٹی کے ترجمان شون اسپائسر نے جو خود ٹرمپ کے لیے صدارتی منتقلی کی کارروائی کی نگرانی میں شریک ہیں، امیدواروں کے چناو¿ کے حوالے سے مذکورہ رپورٹوں کی تصدیق نہیں کی۔
خبریں یہ بھی ہیں کہ امریکا کے اقوام متحدہ میں سابق سفیر اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں وزارت خارجہ کے ایک امیدوار جون بولٹن نے ایران کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یران میں حکومت تبدیل کرنے پر زور دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے جون بولٹن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران کی طرف سے دنیا اور خطے کے ملکوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ میرے خیال میں ایرانی خطرے کا طویل البنیاد حل تہران میں حکومت کی تبدیلی کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ سابق امریکی سفیرنے کہا کہ ایران کی قیادت خطے کے ملکوں اور پوری دنیا کے امن وسلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جون بولٹن نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ایران میں مقتدر نظام کے خاتمے سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے تاہم تہران کی طرف سے سب سے بڑا خطرہ ٹل جائے گا۔
انہوں نے موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کی ایران بارے پالیسی کو بھی ہدف تنقید بنایا، انہوں نے کہا کہ سنہ 2009ءمیں ایران میں ہونے والے احتجاج کے دوران ایرانی عوام نے امریکا کو مددکے لیے پکارا تھا۔ ایرانی عوام نے کہا تھا کہ امریکا یا تو ان کے ساتھ کھڑا ہو یا حکومت کا ساتھ دے۔ مگر امریکی انتظامیہ ایرانی عوام کی کوئی مدد نہیں کرسکی۔
خیال رہے کہ جون بولٹن امریکا کے جہاں دیدہ سیاست دان ہیں۔ وہ امریکا اور ایران کے درمیان طے پائے اس معاہدے کے بھی سخت خلاف رہے ہیں جس کے تحت تہران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے کااعلان کیا تھا اور اس کے بدلے میں امریکا اور عالمی طاقتوں نے تہران پر عاید اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جون بولٹن کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں۔یہ روٹین کا معمولی نوعیت کا معاہدہ ہے۔
جون بولٹن کو مشرق وسطیٰ کے امور میں گہری دسترس حاصل ہے۔ ان کا نام ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں وزارت خارجہ کے منصب کے لیے مجوزہ تین ناموں شامل ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق سابق صدارتی امیدوار ’میٹ رومنی‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے وزیرخارجہ بن سکتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں