ردی کی ٹوکری میں عدالتی فیصلے نہیں ، کرپٹ حکمراں ڈالے جائیں گے
شیئر کریں
سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے گئے وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے فیصلوںپر تنقید کرتے ہوئے کہ کہ انھیں بغاوت پر مجبور کیاجارہاہے اس کے ساتھ ہی اس نے غدار وطن شیخ مجیب الرحمٰن کو جس نے پاکستان کودولخت کرنے کے لیے بھارت سے مدد حاصل کی اور بھارت کی فوجی مددکے ذریعہ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کو دولخت کرکے نہ صرف پاکستان کی بلکہ عالم اسلام کی قوت اوراتحاد کو نقصان پہنچایا حب الوطنی اور معصومیت کا سرٹیفکٹ دیتے ہوئے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان سے ان کی لوٹ مار کاحساب مانگا جاتا رہا تو وہ بھی غداری پر آمادہ ہوسکتے ہیں ، ان کا یہ بیان دراصل بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی اور دیگر مہاسبھائی متعصب مسلم دشمن بھارتی رہنمائوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی جانب ایک اشارہ تھا اوروہ دراصل یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ بھی اپنے محلات بچانے کے لیے بھارتی ٹینکوں کو دعوت دے سکتے ہیں ۔نوازشریف کی جانب سے اپنے خطرناک ارادوں کے اظہار کے باوجود ابھی تک ملک کی کسی سیاسی جماعت یارہنما کی جانب سے کسی طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں اورسیاسی پارٹیوں نے اس بیان کو ان کو عام سابیان اور ہذیان سمجھ کرنظر انداز کردیا ہے ۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اورخاص طور پر حکمراںمسلم لیگ ن کے محب وطن رہنما اس بیان کی پشت پر چھپے ہوئے زہر اور خطرناک ارادوںکومحسوس کرنے کی کوشش کریں اوراس خطرے کے خلاف بند باندھنے کے لیے فوری اقدامات پر توجہ دیں۔
نواز شریف کے اس بیان کو غور سے پڑھاجائے تو یہ اندازہ ہوتاہے، وزارت عظمیٰ سے نااہلی اوراب کبھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز نہ ہونے کے احساس سے نواز شریف کی عقل سلب ہوگئی ہے ،اور نواز شریف کو قوم کے موڈ کا درست اندازہ نہیں ہورہا اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہقوم کی سوچ بھی عدلیہ والی سوچ ہے،نواز شریف کی ساری گفتگوملک میں انتشارپھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔نواز شریف کواقتدار میں رہتے ہوئے نہ کبھی غریب یاد آیا نہ انقلاب،نواز شریف اور ان کی لاڈلی بیٹی کو اب یہ احساس کرلینا چاہئے کہ اب قوم کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔
نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے اس بیان کوتو کہ نواز شریف کا ہر جلسہ تحریک عدل ہے۔ ایک کے بعد ایک سازش کے باوجود مسلم لیگ ن الیکشن جیتے گی۔ ایک سیاسی بیان کہا جاسکتا تھا اور ایک باپ کے خلاف عدالتی فیصلے پر بیٹی کے جذبات سے تعبیر کیا جاسکتا تھا لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اس بیان سے کہ نواز شریف ہمارے لیڈر ہیں ان کے خلاف عدالتی فیصلہ ردی کی ٹوکری میں جائے گا۔ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں پولنگ اسٹیشنوں پر ہوتے ہیں۔ جب بھی ایسا ہوا ان فیصلوں کو کبھی عوام مانیں گے اور نہ تاریخ قبول کرے گی سے اندازہ ہوگیا کہ یہ ہے تحریک عدل۔ یہ عجیب و غریب رویہ پورے ملک میں ایک منفی تاثر پیدا کررہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ عدالتیں سیاسی معاملات میں مداخلت کررہی ہیں اور کسی کی کامیابی کو انتخابی شکست میں تبدیل کررہی ہیں۔ میاں نواز شریف کو جن بنیادوں پر نا اہل قرار دیا گیا ہے وہ سیاسی ہرگز نہیں۔ اگر ان کو چیلنج کرنا ہے تو عدالتوں سے رجوع کریں اگر چیلنج نہیں کرسکتے تو جس وقت یہ ٹریبونل میں آئے تھے یہ مقدمہ زیر سماعت تھا اس وقت کسی کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آئی کہ اپنی عدالت میں اپنا مقدمہ کیوں چلنے دیا۔ اس وقت تو وزیر اعظم بھی اہل تھے اور ان کی بیٹی بھی۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ لوگ ملک چلانے کے اہل بھی نہیں اور حکومت چلانے کے بھی۔ اب مریم صفدر بتا رہی ہیں کہ میاں نواز شریف تحریک عدل چلا رہے ہیں جبکہ حکومت کے وزرا فرما رہے ہیں کہ عدالتوں کے تمام فیصلے تسلیم کریں گے اگر عدالتوں کے فیصلے تسلیم کریں گے اور عدالتوں کا احترام کریں گے تو پھر تحریک عدل کس کے لیے اور کس کے خلاف، کس کے حق میں ہے۔ یہ بات تو تین مرتبہ واضح ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ عدل والی حکومت یا حکمران کی قائل نہیں ان کے دور میں کبھی عوام کو عدل نہیں ملا۔ اگر میاں صاحب یا ان کی اولاد کے نزدیک عدل صرف یہی ہے کہ میاں نوازشریف کو اہل قرار دیا جائے اور ملک میں سیاہ و سفید کا مالک رہنے دیا جائے تو پھر یہ عدل کا قتل ہے۔ یہ بات جلسوں میں کہتے ہیں تو اچھی لگتی ہے کہ ہمارا ہر جلسہ اور پریس کانفرنس تحریک عدل ہے لیکن معنوی اعتبار سے اور مسلم لیگ ن کے ادوار کے تجربات کی روشنی میں ان کا ہر دور ہر عمل تکذیب عدل کے مترادف ہے۔ اس سے بڑھ کر خرابی وزیر اعظم نے کردی۔ خدا معلوم چیف جسٹس یہ نیا باب کھولیں گے یا نہیں کہ وزیر اعظم نے حد کردی ہے۔ عدالتی فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ اب حکومت بھی کھل کر عدالت کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ پاکستان میں اب حکومت کے صرف دو کام رہ گئے ہیں تیزی کے ساتھ مختلف منصوبوں کا افتتاح کرنا ، ایک اور وعدہ پورا کرنے کا دعویٰ کرنا اور میاں نوازشریف کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملانا۔ ان کے ہر عمل کو بہترین اور ان کے خلاف ہر احتسابی کارروائی کو ملک کے خلاف سازش قرار دینا ان کا اولین فرض ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں حالات پر حکومت کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ قومی معاملات میں عوام کے مفادات کے تحفظ پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ جن منصوبوں کا افتتاح ہو رہا ہے یا جس سی پیک پر فخریہ بیانات دیے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کو مقروض بنانے والے اقدامات پر حکومت کی نظر نہیں ہے بلکہ وہ اس پر نظر رکھنا بھی نہیں چاہیے۔ وزیر اعظم سمیت پوری مسلم لیگ اور کابینہ کی نظریں 2018کے انتخابات پر ہیں وزیر اعظم کا ہر دوسرے روز یہی بیان ہوتا ہے کہ 2018کے انتخابات ہم جیتیں گے۔ مریم نواز نے بھی یہی کہا اور وزیر اعظم بھی یہی کہہ رہے ہیں جب وہ اتنی ہمت رکھتے ہیں کہ عدالتوں کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے تو پھر الیکشن کمیشن کی کیا اوقات۔ اس کے فیصلے کو تو جوتے کی نوک پر رکھیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ 1998, 1999 یا 2001کی طرح قومی اتحاد آئی جے آئی یا ایم ایم اے نہیں بن رہی بلکہ اپوزیشن بری طرح تقسیم ہے اس اپوزیشن میں بعض عناصر کی سرگرمیاں اور اقدامات بسا اوقات یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ اب بھی میاں نواز شریف کی حمایت کرر ہے ہیں۔ کبھی عمران خان کو اپوزیشن ہی کی کسی جماعت سے نقصان پہنچتا ہے کبھی پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کے ذریعے حکومت کو سنبھالا دیتی ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کا فائدہ تو حکومت ہی اٹھائے گی۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں پولنگ اسٹیشنوں پر ہوتے ہیں ، بجا ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے کسی فیصلے میں میاں نواز شریف کی نشستوں اور ووٹوں کی تعداد یا مخالف کی کامیابی کا نوٹیفکیشن تو نہیں ہے۔ ان کا معاملہ توحقائق چھپانے سے متعلق ہے۔ یہ درست ہے کہ معاملہ پاناما سے شروع ہوا اور اقاما اور تنخواہ کہیں سے آگئے۔ اس کو کسی عدالت میں چیلنج کریں ورنہ انتظار کریں اگلی حکومت آنے کے بعد اور نئی عدالت عظمیٰ یا اس کے نئے ججوں کی آمد کے بعد وہی کریں جو پیپلز پارٹی نے کیا۔ اس نے 37برس بعد بھٹو کی سزائے موت کو عدالتی قتل قرار دے دیا آپ بھی کم از کم 25برس تو انتظار کریں اس کے بعد اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکیں یا کچھ بھی کریں۔ فی الحال تو جو عدالت عظمیٰ ہے ایک بڑے منصب کے حامل شخص شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اس کی اس سے زیادہ توہین نہیں کی جاسکتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ وزیر اعظم میاں صاحب کی دل جوئی میں لگ گئے ہیں۔ انھیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ نواز شریف ان کی پارٹی کے سربراہ ہیں یا پیر کا درجہ رکھتے ہوںلیکن اس کے باوجود ان کا منصب عدالت عظمیٰ کے بارے میں ایسے جملے کہنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر ملک کے طول و عرض کا جائزہ لیں تو شاہد خاقان عباسی کے پاکستان میں عدل کہیں نہیں ہے صرف تکذیب عدل ہو رہی ہے۔ اگر عدالتیں تھوڑا بہت انصاف کررہی ہیں کہیں 17برس بعد کہیں بے گناہ شخص کی موت کے بعد اسے بے قصور قرار دے رہی ہیں تو انہیں کام تو کرنے دیں۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور مریم صفدر کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ردی کی ٹوکری میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے نہیں بلکہ دنیا کے ایسے تمام حکمران پھینکے جائیں گے جو اپنے عوام کو عدل و انصاف نہیں دے سکتے۔