ڈونلڈ ٹرمپ کوپاکستان سے متعلق اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑے گا
شیئر کریں
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز شمالی کوریا کے قائد کم جونگ ان کی اس دھمکی کے جواب میں کہ ایٹمی حملے کابٹن ہر وقت میری میز پر رہتاہے ٹوئٹر پر شمالی کوریا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاس شمالی کوریا سے بڑا جوہری بٹن موجود ہے جو کام بھی کرتاہے ، بالفاظ دیگر انھوںنے شمالی کوریا کے رہنما کو یہ دھمکی دی تھی کہ امریکا شمالی کوریا کی جانب سے امریکا کے خلاف کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتاہے ، شمالی کوریا جیسے کمزور اور کم وسیلہ ملک کے رہنما کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس مہم جوئی اور جارحانہ انداز سے امریکی صدر کی دماغی حالت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی ایک ایسے رہنما کو دی ہے جس کے بارے میں وہ خود یہ اعتراف کرچکے ہیں شمالی کوریا کے صدر میں مشکل وقت سے نمٹنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ،امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوںامریکی ٹی وی چینل سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو مشکل وقت سے اچھی طرح نمٹنے والا ‘ہوشیار’ رہنما قرار دیا تھا ، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ کم جونگ نے کم عمری میں اقتدار سنبھالا اور وہ بھی اس وقت جب انھیں ‘کچھ انتہائی سخت لوگوں سے نمٹنا’ پڑا۔وہ 26 یا 27 برس کے نوجوان تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوا، ظاہر ہے کہ وہ بہت سخت لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور سے جرنیلوں اور دوسرے لوگوں کا۔ امریکی صدر کے مطابق ‘کم جونگ ان کو بہت کم عمری میں اقتدار ملا.انھوں نے کہاتھا کہ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں نے ان سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی اب چاہے وہ ان کے چچا ہوں یا کوئی لیکن انھوں نے اقتدار اپنے پاس برقرار رکھا. ظاہر ہے کہ وہ بہت ہوشیار ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک ایسے رہنما کو جو خود ان کے قول کے مطابق مشکل وقت سے اچھی طرح نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والا ‘ہوشیار’ رہنما ہے ٹوئٹر پر دھمکی دیتے ہوئے غالبا کم جونگ ان کی اس خوبی کو نظر انداز کرتے ہوئے شمالی کوریا سے بڑا بٹن رکھنے کی بھڑک مار کر شمالی کوریا کو دبائو میں لینے کی کوشش کی ہے ،لیکن ظاہر ہے کہ ایک ایسا رہنما جس کی قابلیت اور مشکل اوقات سے نمٹنے کی صلاحیت کو خود امریکی صدر تسلیم کرتے ہیں اس طرح کی دھمکیوں کے ذریعے دبائو میں لینا غالباً بہت ہی مشکل نہیں بلکہ ناممکن کام ہے اور اس طرح کی دھمکیوں کے زیادہ منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں جس کامقابلہ کرنے میں امریکا کی سلامتی بھی دائو پر لگ سکتی ہے ۔
جہاں تک ایٹمی بٹن کا تعلق ہے جس کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کادعویٰ ہے کہ وہ ان کی میز پر موجودہ ہے اور شمالی کوریا کے ایٹمی بٹن سے زیادہ بڑا ہے تو اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہکیا واقعی ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس کوئی ’جوہری بٹن‘ ہے جسے وہ اپنی مرضی سے چلاسکتے ہیں؟یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ جوہری ہتھیاروں کو لانچ کرنا دراصل ٹی وی چینل کو تبدیل کرنا نہیں ہے یہ کام تصور سے کچھ زیادہ پیچیدہ کام ہے۔ایٹمی حملے کے لیے درکار بٹن میں بسکٹ اور فٹ بال شامل ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس کوئی سچ مْچ کا جوہری بٹن نہیں ہے۔جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ گذشتہ سال 20 جنوری کو ایک فوجی معاون سابق امریکی صدر بارک اوباما کے ہمراہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں ایک چمڑے کا بیگ لے کر گیاتھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور امریکی صدر حلف اٹھانے کے بعد وہ فوجی معاون اس چمڑے کے بیگ کے ہمراہ اس جانب چلا گیا جہاں ٹرمپ کھڑے تھے۔چمڑے کا یہ بیگ ‘دی نیوکلیئر فٹ بال’ کے نام سے مشہور ہے۔امریکا کے ایٹمی ہتھیاروں کو لانچ کرنے کے لیے اس ’جوہری فٹبال‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔اگست میں ایک ماہر نے سی این این کو بتایا تھا کہ جب ٹرمپ گالف کھیلتے ہیں تو یہ ‘دی نیوکلیئر فٹ بال’ ایک چھوٹی گاڑی میں ان کا پیچھا کرتا ہے۔اگر عوام کبھی اس ایٹمی فٹبال کے اندر جھانکیں تو وہ مایوس ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ کوئی بٹن نہیں ہے اور وہاں کوئی گھڑی نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہاں مواصلاتی آلات اور کتابیں ہیں جن میں تیار جنگی منصوبے ہوتے ہیں۔ان منصوبوں کو فوری فیصلہ لینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔1980 میں وائٹ ہاؤس کے ایک سابق ڈائریکٹر ملڑی آفیسر بل گللے نے کہا تھا کہ ان منصوبوں میں یہ تجویز کیاجاتاہے کہ جوابی کارروائی ’کم، درمیانے یا شدید درجے‘ کی ہوگی۔ ’بسکٹ‘ ایک ایسا کارڈ ہے جس میں کوڈ ہوتے ہیں۔ صدر کو ہمیشہ یہ کارڈ اپنے ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ فٹبال سے الگ ہوتا ہے۔اگر امریکی صدر کو حملہ کرنے کا حکم دینا ہو تو وہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے کوڈ استعمال کرے گا۔امریکا کا صدر بن جانے کے بعد اے بی سی نیوز نے ٹرمپ سے پوچھا کہ وہ ’بسکٹ‘ وصول کرنے کے بعد کیسا محسوس کرتے ہیں؟صدر ٹرمپ نے جواب دیا ’جب وہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے اور اس طرح کی تباہی جس کے بارے میں آپ بات کر رہے ہیں یہ ایک بہت ہی ہوش مندی کا لمحہ ہے۔‘انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ بہت زیادہ خوفناک ہے۔ ‘امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن کے ایک فوجی معاون رابرٹ پیٹرسن نے دعویٰ کیا تھاکہ کلنٹن نے ان کوڈز کو گم کر دیا تھا۔ان کے مطابق کلنٹن اس بسکٹ کو اپنی پینٹ کی جیب میں اپنے کریڈٹ کارڈز کے ہمراہ ایک ربر بینڈ میں رکھتے تھے۔ رابرٹ پیٹرسن کے مطابق ایک صبح جب مونیکا لیونسکی کا سکینڈل منظرِ عام پر آیا تو کلنٹن نے تسلیم کیا کہ انھوں نے کچھ وقت کے لیے یہ کوڈز نہیں دیکھے تھے۔امریکا کے ایک اور اعلیٰ اہلکار جنرل ہیگ شیلٹن نے بھی دعویٰ کیا تھاکہ ’کلنٹن نے چند ماہ کے لیے بسکٹ گما دیے تھے۔‘امریکی صدر اپنی شناخت ظاہر کرنے کے بعد چیئرمین جوائنٹس چیفس آف ا سٹاف کو اس کا حکم دیتا ہے۔ امریکی فوج میں چیئرمین جوائنٹس چیفس آف سٹاف اعلیٰ ترین آفیسر ہوتا ہے۔اس کے بعد یہ حکم نبراسکا میں قائم امریکی ا سٹریٹیجک کمانڈ ہیڈکوارٹر ایئر بیس میں جاتا ہے۔جس کے بعد وہ اسے ’زمین پر موجود‘ ٹیم کو دیتے ہیں۔ (یہ ٹیمیں سمندر یا زیرِ سمندر ہو سکتی ہیں۔)جوہری ہتھیاروں کو چلانے کا یہ حکم کوڈز کے ذریعے دیا جاتا ہے جن کی لانچ ٹیم کے سیف میں موجود کوڈز کے ساتھ مماثلت ضروری ہے۔امریکی صدر فوج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ جو وہ کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔گذشتہ سال نومبر میں 40 برس میں پہلی بار امریکی کانگریس نے امریکی صدر کے جوہری ہتھیار کو لانچ کرنے کے اختیارات کا معائنہ کیا تھا۔ 2011 سے 2013 تک امریکی سٹریٹیجک کمانڈ کے ایک ماہر سی رابرٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ جیسا کہ ان کی تربیت کی گئی ہے وہ امریکی صدر کے جوہری ہتھیاروں کو لانچ کرنے کے حکم کی صرف اس صورت میں پیروی کریں گے جب وہ قانونی ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مخصوص حالات میں اس پر عمل نہیں کر سکتا۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ ’اس کے بعد کیا ہو گا؟’ ان کا جواب تھا ’میں نہیں جانتا‘۔
اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر پاگل پن کادورہ پڑجائے اور وہ دنیا کے کسی ملک پر ایٹمی حملے کاحکم دے دیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ متعلقہ ملک پر فوری طورپر ایٹمی حملے کانشانہ بنادیاجائے گا کیونکہ ایٹمی حملہ کرنے یا نہ کرنے کاحتمی فیصلہ امریکا کااسٹریٹجک کمانڈر کرے گا ، اس سے ظاہرہوتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تمامتر خواہشات کے باوجود اپنے فوجی جنرلز کو اعتماد میں لیے بغیر کسی ملک پر ایٹمی حملہ نہیں کرسکتے ، اس سے امریکی صدر کی بے بسی کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے اسی طرح امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پا س کسی ملک کو دفاعی نقطہ نگاہ سے اپنا اتحادی بنانے یا اتحادیوں کی فہرست سے خارج کرنے کابھی حتمی اختیار نہیں ہے، اس لیے پاکستان کے خلاف ان کی تمام تر ہرزہ سرائیوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون جاری رکھنے یا نہ رکھنے کاحتمی فیصلہ بھی امریکا کی فوجی اسٹریٹجک کمانڈ ہی کرسکتی ہے،اور یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے موجود شکوک وشبہات کے باوجود امریکی فوجی قیادت افغانستان میں قیام امن اور دہشت گردی خلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے اس لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو دیوار سے لگانے میں آسانی سے کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور انھیں جلد یا بدیر پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔