ڈونلڈ ٹرمپ نئے امریکی صدر....امریکا انتہا پسندی کی طرف گامزن
شیئر کریں
امریکا سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر مزید منقسم ہو گیا ہے،سوشل میڈیا پر کسی نے اسے نفرت کی جیت قرار دیا،کسی نے عوامی مسائل پر آواز اٹھانا ٹرمپ کی فتح کا سبب قراردیا ،خانہ جنگی کے خدشات کا بھی اظہار
ٹرمپ کی سیاہ فاموں ،مسلمانوں اور تارکین وطن کیلیے نفرت اور تجارتی و خارجہ پالیسی کے لیے اپنے نئے اصول اور موجودہ نظام کیخلاف کھری کھری باتیں ہی امریکیوں کے لیے خوبی ٹھہریں،ووٹرز کو روزگارکی امیدی
ابو محمد
ارب پتی امریکی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کے 45ویں صدر منتخب ہونے پر سوشل میڈیا پر خوشی اور غم سے بھرپور ملے جلے تاثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں، جہاں کئی لوگ خوشی سے سرشار تھے تو کچھ نے انتخابی نتائج پر حیرانی و پریشانی کا اظہار کیا۔ٹرمپ کی کامیابی کو مجموعی طور پر دنیا میں منفی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، جس کی وجہ ان کا ماضی اور صدارتی مہم سے قبل اور اس دوران دیے جانے والے متنازع بیانات ہیں۔ٹرمپ کی کامیابی کے بعد جہاں ایشیائی شیئرز کی مارکیٹ متاثر ہوئی وہیں عوام کی اکثریت نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ٹوئٹر ہینڈل شہباز جمال نے لکھا کہ امریکا 9/11 کو کبھی نہیں بھولے گا اور 11/9 پر ہمیشہ افسوس کرے گا۔ماجد آغا نے ٹرمپ کے انتخاب پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں انتہا پسندی کا ٹھیکیدار امریکا آج خود انتہا پسندی کا شکار ہو گیا۔
سرجیکل اسٹرائیکر کے نام سے کی گئی ٹوئٹ میں خبردار کیا گیا کہ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد امریکا خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔انکا خیال ہے کہ امریکا کے بھی برے دن شروع ہوگئے ہیں کیونکہ
ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں اور کالوں سے شدید نفرت کرتا ہے،ایسے شخص کے صدر بننے کے بعددوسرے ملکوں میں دہشت گردی کروانے والے امریکا کو خود خانہ جنگی کا خطرہ درپیش ہے۔
اس دوران آصف بٹ نے اچھا سوال اٹھایا ہے کہ آیا امریکا کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد ملنے والا کولیشن سپورٹ فنڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد بھی ملتا رہے گا یا نہیں۔پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کی آمد کو زیادہ سراہا نہیں جا رہا اور اسے دنیا بھر کیلیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔پیڈی پاورٹوئٹر ہینڈل سے ڈبلیو ڈبلیو ای کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس کے مطابق اب صرف ریسلر اسٹون لوڈ ہی امریکا کو بچا سکتے ہیں۔جب کہ ایک خاتون نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ”اب خوبصورت خواتین بے روزگار نہیں رہیں گی ،لیکن ہم جیسوں کا کیا ہوگا “؟
فلپ بلوم نے ڈبلیو ڈبلیو ای کی ایک اور ویڈیو میں ٹرمپ کی متشدد شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ امریکا کے نئے صدر ہیں۔رینی نے ٹرمپ کے انتخاب کو امریکا کی ‘ڈراو¿نی کہانی’ قرار دیا۔
ایک اور شخص نے امریکی عوام پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے امریکی صدر کے انتخاب سے زیادہ میک ڈونلڈ پر آرڈر دیتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف اپنی حریف ہلیری کلنٹن ہی کو شکست نہیں دی بلکہ تمام اندازوں، تخمینوں اور پیش گوئیوں کو بھی مات دے دی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے درمیان عہدہ صدارت کے لیے کانٹے کا مقابلہ ہوا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جبکہ صدر منتخب ہونے کے لیے 538 میں سے کم سے کم 270 الیکٹورل ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ صدارت کے لیے موزوں امیدوار نہیں ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے عشروں سے ٹیکس ادا نہیں کیا، انھوں نے عورتوں کا تمسخر اڑایا، ان کے درجنوں جنسی اسکینڈل سامنے آئے، انھوں نے تارکینِ وطن کو ناراض کیا، مسلمانوں کی امریکا آمد پر پابندی لگانے کا اعلان کیا، میکسیکو والوں کو جنسی مجرم کہا، میڈیا کے خلاف جنگ لڑی، خود اپنی ہی جماعت کے رہنماو¿ں سے مخالفت مول لی، وغیرہ وغیرہ۔لیکن پھر بھی جیت اپنے نام کر لی، اس صورتِ حال میں مبصرین ان کی حیران کن فتح کوسیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ قرار دے رہے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے ہلیری کلنٹن جیسی منجھی ہوئی سیاست دان کو شکست سے کیسے ہمکنار کر دیا؟
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ماہرِ معاشیات اور سیاسی مبصر منظور اعجاز نے کہا کہ دراصل ان انتخابات میں لوگوں نے ٹرمپ کو نہیں بلکہ اپنے روزگار کو ووٹ دیے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکا کے ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کیے ہیں جنھیں ‘رسٹ بیلٹ’ یا ‘زنگ آلود پٹی’ کہا جاتا ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں کئی عشرے قبل بھاری انڈسٹری قائم تھی لیکن امریکی معیشت کی سست رفتاری کی وجہ سے کارخانے رفتہ رفتہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئے ، اس عمل کا نتیجہ لاکھوں لوگوں کی بےروزگاری کی شکل میں نکلا۔اس پٹی میں مشی گن، اوہایو، وسکانسن اور پینسلوینیا جیسی ریاستیں شامل ہیں۔منظور اعجاز کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں رہنے والے سفید فام قطار اندر قطار ٹرمپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے کیوں کہ انھیں توقع ہے کہ چونکہ ٹرمپ خود ارب پتی بزنس مین ہیں اس لیے وہ اپنی کاروباری سوجھ بوجھ سے کام لے کر اس علاقے کی کاروباری سرگرمیاں بحال کر سکتے ہیں۔
اس کے مقابلے پر ہلیری کلنٹن کو دو چیزوں نے سخت نقصان پہنچایا۔ ایک تو یہ کہ ان کی اپنی ہی جماعت کی جانب سے امیدواری کے متمنی برنی سینڈرز کے ساتھ انھیں طویل اور تند و تلخ جنگ لڑنا پڑی جس کے دوران برنی سینڈرز نے خاصی کامیابی سے کلنٹن کو ‘بدعنوان نظام’ کا حصہ ظاہر کر دیا۔سینڈرز نے لوگوں کو باور کروا دیا کہ ہلیری کلنٹن چونکہ اسی نظام کی پیداوار اور اس کی تقویت کی ذمہ دار ہیں، اس لیے ان سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتی ہیں۔دوسری جانب ایف بی آئی کی جانب سے ہلیری کلنٹن کے خلاف ای میلز معاملے کی تحقیقات عین وقت پر کھولنے سے بھی ہلیری کو زک پہنچی، اور لوگوں کا یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ سیاست دانوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
واشنگٹن میں مقیم ایک تبصرہ نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان انتخابات میں ایک چیز یہ بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ امریکا اکیسویں صدی میں بھی کسی عورت کو صدر بنانے کے لیے تیار نہیں ۔جب کہ ایک اورچیز جو پہلے ہی واضح تھی اور ان انتخابات میں مزید کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر مزید منقسم ہو گیا ہے۔
ان میں سے ایک تقسیم شہری اور دیہی کی ہے، شہری علاقے بڑی حد تک ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں لیکن دیہی حصوں کی بھاری اکثریت رپبلکن پارٹی کی حامی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور خلیج سفید فام امریکیوں اور بقیہ تمام امریکیوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ سفید فاموں کی غالب اکثریت رپبلکن پارٹی کی حامی ہے، جب کہ سیاہ فام، لاطینی امریکی اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مہاجرین بڑی حد تک ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ایک اور تقسیم زیادہ تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ ووٹروں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ کم پڑھے لکھوں کی بڑی تعداد رپبلکن ہے، جب کہ کالج کے سندیافتہ ووٹر زیادہ تر ڈیموکریٹ امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔
مقامی صحافی رانا آصف سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جس شخص کا مضحکہ ا±ڑایا جائے، جسے سنکی، مسخرہ اور احمق تصور کیا جاتا ہو وہ سیاست کے میدان میں کام یاب ہواہو؟ ابھی کل کی بات ہے مودی جیسا ”لوکل“ سیاست داں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے کام یابی کا تمغہ سینے پر سجائے دنیا بھر میں سیلیفیاں لے رہا ہے۔ کیا ہم بھول گئے ، پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی لیڈر نے جس شخص کے بارے میں کہا تھا کہ ہم نے ایک ایسے آدمی کو وزیر اعظم بنایا ہے جس کے سر کی جگہ تربوز ہے، کاغذ کا شیر ہے۔ سیاست کے جنگل کا وہ شیر آج تیسری مرتبہ ایوان وزیر اعظم میں ہے۔ سرد جنگ کے فیصلہ کن موڑ پر ایک ایسا ہی آدمی کیا ریاست ہائے متحدہ کا صدر نہیں تھا جس کے دور سیاست کی سب سے بڑی یاد گار اس کے چٹکلے تھے۔ ریگن کا ایسا ہی ایک چٹکلا ہے کہ ”پیشہ ور سیاست دانوں کا پسندیدہ مشغلہ حکومت کرنے کے لیے تجربے کی اہمیت پر بات کرنا ہے۔ بکواس! سیاست سے آپ واحد تجربہ یہ حاصل کرتے ہیں کہ سیاسی کیسے ہوا جائے“ اور سیاسی آدمی اپنی ”پبلک“ کو خوش کرنے کا گ±ر جانتا ہے۔ چاہے ایسا کرتے ہوئے وہ دنیا کی نظر میں مذاق ہی کیوں نہ بن کر رہ جائے، میرے جیسے مڈل کلاس نیم خواندہ اس پر تاڑیاں مار کر ہنستے رہیں، پھبتیاں کستے رہیں لیکن اسے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے کھیل میں وہی ایشو دراصل ایشو ہوتا ہے جو عوام کی سمجھ میں آجائے۔ ٹرمپ کی فتح پر لطائف کا سلسلہ تو جاری رہے گا، لیکن اس کی فتح نے ہمیں بتا دیا کہ آج امریکا کن مسائل کا شکار ہے؟ اگر آپ اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بات کریں گے، انھیں خواب بیچنے میں کام یاب ہوجائیں گے، تو چاہے وہ خواب دوسروں کے لیے ڈراو¿نے کیوں نہ ہوں، چاہے آپ کے پیش کردہ حل دوسروں کے لیے بحران کیوں نہ ثابت ہوں، میڈیا آپ پر قہقہہ بار ہو اور عالمی رائے عامہ آپ کو نفرت اور تضحیک کی نظر سے دیکھتی ہو، پھر بھی میدان آپ ہی کا ہوگا۔ یہی سیاست ہے اور یہی امریکی انتخاب کی اس ”ٹریجڈی“ کا سبق کہ اب ہمیں بھی اب اپنی سیاست میں اپنا اپنا ”ٹرمپ“ تلاش کرنا ہوگا۔
بہر حال جو بھی ہو ،نتیجہ یہ نکلا کہ آخر کار ٹرمپ کی سیاسی ناتجربہ کاری، لاپروایانہ انداز اور کھری کھری سنا دینے جیسی ‘خامیاں’ ہی ان کی خوبیاں قرار پائیں اور ہلیری کلنٹن کو منجھا ہوا سیاست دان ہونے، طویل انتظامی تجربہ، نظام کی سمجھ بوجھ جیسے میدانوں میں جو برتری حاصل تھی، وہی بالاًخر ان کے گلے کا ہار بن گئی۔