مقبوضہ کشمیر کے ا سٹیڈیم میں پاکستان زندہ باد کے نعرے
شیئر کریں
بھارتی فوج سالہا سال کے ظلم و تشدد کے بعد بھی کشمیریوں کے دل سے پاکستان کی محبت کو ماند نہیں کر سکی، انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اس محبت کا اظہار کچھ اس طریقے سے کرتے ہیں کہ بھارت اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوج کے زیر اہتمام ضلع بڈگام میں کشمیر پریمیر لیگ کا انعقاد کیا گیا جس میں بھارتی پولیس اور فوج کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، میچ کے دوران بھارتی پولیس اور فوج کے اعلیٰ افسران کو اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں اور کھلاڑیوں نے پاکستان اور حریت رہنما ذاکر موسیٰ کے حق میں نعرے لگانا شروع کردیئے۔
کشمیر میڈیا سیل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق میچ کی اختتامی تقریب کے دوران اسٹیڈیم میں موجود کھلاڑیوں اور تماشائیوں نے پاکستان کا جھنڈا لہرایا اور بھارت سے آزادی کے نعرے لگائے۔ چند روز قبل بھی مقبوضہ کشمیر میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جب بھارتی فوج کی جانب سے منعقد کرکٹ میچ کے دوران بھارتی کھلاڑی مہندرا سنگھ دھونی کی آمد پر کشمیری نوجوانوں نے’’بوم بوم آفریدی‘‘ کے نعرے لگائے تھے۔
یہ واقعات اس بات کاثبوت ہیں کہ بھارت اپنی تمام تر فوجی طاقت کشمیری عوام کادل جیتنے اورانھیں بھارت کی غلامی قبول کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام ہوچکاہے ،جہاں تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کاتعلق ہے تومعلوم تاریخ میں انسان کی سفاکی، بربریت اور ظلم و ستم کی ایسی بے شمار شرمناک کہانیاں ہمیں جابجا اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی علمبرداری کادعویٰ کرنے والے ممالک کے رہنمائوں کا منہ چڑاتے نظر ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ کہلانے والے دور میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے ان کہانیوں میں مزید سیاہ رنگ بھرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے ،کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی بہت سے مسلمہ ثبوت و شواہد بھارتی حکمرانوں کے مکروہ فریب کا پردہ چاک کرتے نظر آتے ہیں، اسی سلسلے کی ایک معتبر کڑی ادیب، تاریخ دان اور صحافی شبنم قیوم کی تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب میں ان حقائق کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے ظاہرہوتاہے کہ ’’بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو، شیخ عبداللہ اور لارڈ مائونٹ بیٹن نے 27 اکتوبر 1947کو کشمیر کے بھارت سے الحاق کی جعلی دستاویز تیار کی جسے بھارتی عوام سے بھی پوشیدہ رکھنے کے لیے بھارت کے قومی خزانہ میں محفوظ کر دیا گیا۔ بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ کابینہ نے وی پی مینن کو مہاراجہ سنگھ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرانے سرینگر بھیجا اس جھوٹ کا پول خود مینن نے اپنی آب بیتیوں میں کھول دیا کہ وہ سرینگر نہیں گیا بلکہ کشمیر کے وزیراعظم سی ایم مہاجن کے ساتھ دہلی میں رہا۔ اس کی مہاراجہ ہری سنگھ سے ملاقات کا بھی کوئی ریکارڈ یا دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اے جی نورانی کی تحقیق کے مطابق الحاق کی جعلی دستاویز دہلی میں گڑھی گئی تھی مہاراجہ کی جانب سے کشمیر میں فوجی تعاون کی اپیل بھی جعلی ہے جس پر 27 اکتوبر تاریخ کے ساتھ3بجے کا وقت تحریر ہے جبکہ اس وقت تک بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل ہو کر آپریشن شروع کیے 9 گھنٹے گزر چکے تھے۔ کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہے کہ جب بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل ہوئے 9 گھنٹے گزر چکے تھے۔ مہاراجہ بھارت سے فوج بھیجنے کی درخواست کر رہا ہے۔ جبکہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ مہاراجہ خود مختار کشمیر اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کا حامی تھا اگر آج بھی فارنزک تجزیہ کیا جائے تو بھارت سے الحاق کی دستاویز پر مہاراجہ کے جعلی دستخط ثابت ہو سکتے ہیں اور اسی حوالے سے اہم ترین بات یہ کہ اگر یہ دستاویزات ہوتیں تو بھارت کے حکمرانوں کے پاس اسے خفیہ رکھنے کے لیے کوئی قانونی بلکہ اخلاقی جواز بھی نہیں ہے اس لیے وہ اس مقصد کے لیے جورو ستم کے ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے۔ جن کا نشانہ بننے والوں میں بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل ہیں وہ جو شہید کیے گئے، پیلٹ گن سے زخمی ہوئے۔ جن کی آنکھیں ضائع ہوئیں۔ زخمی اور گرفتار ہوئے ان کی تعداد ہزاروں میں ہے غفت مآب بیٹیوں کی عصمت دری کے شرمناک واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ بھارتی فوج کے ساتھ شیوسینا، بجرنگ دل، وی ایچ پی اور آر ایس ایس جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 18سے 20 گھنٹے تک مسلمان آبادیوں کا کریک ڈائون بھارتی فوج کا معمول ہے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی یہ بدترین کارروائیاں جاری ہیں، لیکن اس تمام ظلم و ستم کے باوجود بھارت کشمیری عوام کی آواز دبا سکا نہ ان میں آزادی کی تڑپ کو ختم کر سکا ہے حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس سے جہاں بھارتی مظالم کی عکاسی ہوتی ہے وہاں یہ ہولناک انکشاف بھی ہے کہ بھارت کشمیر میں نہتے لوگوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ واضح رہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل کے بعد سے بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر میں فاسفورس بموں کا استعمال شروع کیا ، ایک اور رپورٹ کے مطابق اسرائیل ایک ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے بھارت کو مہلک ہتھیار فراہم کر رہا ہے،واضح رہے کہ اسرائیل غزہ اور لبنان میں فاسفورس بم استعمال کرتا رہا ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی حق خود ارادیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی ضمیر کو جاگنا چاہئے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان کے لیے کور ایشو تھا اور ہے، کیونکہ اس کے حل تک جنوبی ایشیا میں امن واستحکام یقینی نہیں بن سکتا۔ کشمیر جنوبی ایشیا کا فلیش پوائنٹ ہے۔ آج کشمیریوں کی تیسری نسل میدانِ عمل میں موجود ہے۔ پیلٹ گنز کے استعمال کے ذریعے نوجوانوں کو اندھا کیا جا رہا ہے۔ ۔بھارتی جیلوں میں کشمیری اسیروں کے ساتھ ناروا سلوک اور سول ہلاکتوں کیخلاف احتجاج اور ہڑتالوں کاسلسلہ بھی جاری ہے۔
کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت کو علیحدگی کی 30 تحریکوں کا سامنا ہے گورکھوں کی جانب سے الگ ریاست کی تحریک کے سلسلے میں دارجلنگ میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں گورکھا جان مکتی مورچہ نامی تنظیم تقسیم برصغیر سے پہلے سے علیحدگی کی تحریک چلا رہی ہے۔ 1952,1940,1949,1907 اور 1986 میں زور پکڑتی رہی 2017میں بھارتی فوج کے مظالم کے باوجود دوبارہ سرگرم ہوئی ہے اور گورکھا لینڈ تحریک نے پھر زور پکڑا ہے۔ بھارت کے7 صوبوںمیں عوام نے حقوق اور آزادی کی تحریکیںشروع کررکھی ہیں ان میں آسام، تری پورہ، ناگا لینڈ، منی پور، ارونا چل پردیش، میزو رام اور میگالیہ شامل ہیں انہیں سیون سسٹرز کا نام بھی دیا جاتا ہے محض 23 کلومیٹر کی پٹی انہیں بھارت سے منسلک رکھے ہوئے ہے جس دن یہ پٹی ٹوٹ گئی اس جغرافیائی اکائی کا بھارت سے زمینی ناطہ ٹوٹ جائیگا۔ اگرچہ بھارت کے حکمرانوں اور میڈیا نے بڑی چالاکی سے ان تحریکوں پر پردہ ڈالا ہے لیکن یہ پردہ جلد پھٹ کر رہے گا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے خود مغربی دنیا کی حقوق انسانی کی تنظیموں اوراداروں کی رپورٹوں سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ بھارت اس خطے پر زبردستی قابض ہے اور اس خطے کے عوام بھارتی حکمرانوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں،اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ بھارتی حکمرانوں کوکشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کرنے اور کشمیری عوام کو ان کاپیدائشی حق خود اختیاری دینے پر مبجور کرے۔جب تک ایسا نہیں کیاجاتا اس خطے پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور اس خطے کاہی نہیں بلکہ پوری دنیاکاامن خطرے سے دوچار رہے گا۔