دیدہ ور
شیئر کریں
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ
ان کی آنکھ بینا تھی‘ ذہن بیدار تھا اور فکر عالمگیر تھی۔
علامہ اقبال اپنے وسیع مطالعے‘ فکری تجربے اور ذہنی مشاہدے سے صحیح معنوں میں ’دیدہ ور‘ کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔
وہ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ اس مختصر کُروی زندگی کی آموزش گاہ میں فیضیاب ہوکر’دیدہ ور‘ کی منزل تک پہنچنا کوئی آسان بات نہیں۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تاہم وہ اپنی ہمہ گیر دانش اور قلبی بصیرت سے ’دیدہ ور‘ بن کر اس زیست کے راز کے راز دان بن چکے تھے‘ اور ان کو اس کا بھی شدید احساس تھا کہ
د گر دانائے راز آید کہ ناید
یہ راز خالق اور انسان کے قریبی رشتے سے وابستہ تھا!
یہ راز خلقت کائنات میں جاری و ساری تخلیقی عمل میں مضمر تھا!
یہ راز خودی تھا یا سربے خودی تھا!
یہ راز خودی اور بے خودی کے تخلیقی عمل و ردعمل میں پنہاں تھا!
یہ راز کائنات میں انسان کے تفوّق اور لاتناہی ارتقا کا پاسباں تھا!
راز دان نے مختلف زاویوں سے اسی راز کی پردہ کشائی کی۔
انسان کے اعلیٰ مقام اور احترام کے علمبردار بلکہ احترام آدم کو ہی اصل تہذیب قرار دینے والے:
برتر از گردوں مقام آدم است
اصل تہذیب احترام آدم است
انسان کی ارتقائی سربلندی کے نہ صرف قائل بلکہ درس دینے والے اور اس تخیل کے مجدد
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہردم
یہ ذرہ نہیں‘ شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
اسلام کی روح پرور تعلیم اور اسلامی نظام حیات کے شارح۔ قرآن حکیم کو منبع حکمت اور حقیقت اور نبی خاتم المرسلین کو مشعل رشد و ہدایت ماننے اور سمجھنے والے، ’اسلام‘ کے بجائے ’روح‘ کے دلدادہ اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے مبلغ۔ جغرافیائی تفریق اور ’نیشنلزم‘ کے محدود اور مہلک تخیل کے بجائے وحدت انسانی اور ملت اسلامی کے ہمہ گیر نظریے کو پروان چڑھانے والے۔ سرمایہ داری اور سامراجیت یا اشتراکیت اور ملوکیت پر اسلام کے فلسفہ زندگی اور علم و فکر و عدل و توحید پر مبنی نظام حیات کو ترجیح دینے والے۔ ان کی نظر میں اشتراکیت اور ملوکیت:
ہر دو جاں را نا صبور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب
زندگی ایں را خروج آں را خراج
درمیانِ ایں دو سنگ آدم زجاج
مشرق کو پیغام بیداری دینے والے‘ اور اقوام شرق میں احساس زیاں اور خودشناسی کا جذبہ ابھارنے والے‘ اپنے وسائل پر انحصار اور خود اعتمادی‘ عسکری قوت‘ انفرادی اور اجتماعی عزت نفس کا درس دینے والے نے بتایا کہ مغرب کی اندھی تقلید سے مشرق اجتناب کرے اور مغرب کے علم و ہنر کو اختیار کرے۔ مغرب کی اصل طاقت اور ترقی کا راز اس طرح سمجھایا کہ :
قوت مغرب نہ از چنگ ورباب
نے ز رقص دختران بے حجاب
قوت افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
ایشیا کی انفرادیت اور اجتماعی شخصیت کی نشاندہی کی‘ اور ایشیا میں ملت اسلامیہ کی آزادی کو پوری ایشیا کی آزادی سے تعبیر کیا:
ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
برصغیر ہند میں مسلمانوں کی آزاد مملکت کے قیام کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنے والے۔ پنجاب اسمبلی (لاہور) سے گول میز کانفرنس تک ایک مسلسل سیاسی عمل سے اس نظریے کی آبیاری کی۔ مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ میں شامل ہوکر ایک صحیح اور مثبت کردار ادا کیا‘ تا آں کہ خطبہ الہ آباد میں برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا ‘ گویا قیام پاکستان کی پیش گوئی کی۔